افغانستان: امریکی کامیابیاں، جرائم اور ہلاکتوں کے سبب ماند
3 دسمبر 2017قندوز سمیت کئی اور صوبوں میں امریکی فوج کے فضائی حملوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، ان حملوں کی وجہ سے خاص طور پر قندوز میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو احساس ہوا ہے کہ اب طالبان اُن کے علاقے پر دوبارہ چڑھائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ طالبان کا خوف ختم ہوا ہے تو عام لوگوں کو منظم جرائم پیشہ اور مسلح گروپوں کی مجرمانہ وارداتوں کے خطرات نے گھیر لیا ہے۔
تازہ ڈرون حملہ، کم ازکم تین جنگجو مارے گئے
صرف تین ملکوں میں امریکا کے ہزاروں فوجی تعینات ہیں
افغان طالبان کا اہم کمانڈر فضائی حملے میں ہلاک
افغان طالبان کے خلاف کارروائی میں مدد کر سکتا ہوں، امریکی جنرل
افغانستان میں جرائم پیشہ گروپوں کے ساتھ ساتھ بعض مسلح ملیشیا بھی ڈاکے، راہزنی، چوریوں اور اغوا کی وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی باعث خیال کیا جا رہا ہے کہ جنگی میدان میں افغان فوج اور امریکی فوجیوں کو حاصل ہونے والی کامیابیاں ایسی مجرمانہ وارداتوں سے گہناتی جا رہی ہیں۔ کئی شہروں میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے۔
قندوز شہر سے دس منٹ کی مسافت سے ہی طالبان کے کنٹرول والا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ شہریوں کو اس کا بھی خوف ہے کہ اگر وہ شہری حدود سے باہر نکلے تو فضا میں پھرتے گن شپ ہیلی کاپٹروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کی لپیٹ میں وہ بھی آ سکتے ہیں۔ اس باعث شہروں سے باہر دیہات کے لوگوں کی زندگیوں کو بہت زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔
عام لوگوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں نئی امریکی حکمت عملی پر عمل شروع کرنے اور کابل حکومت کے ساتھ طے پانے والے نئے معاہدے کے بعد مجموعی صورت حال میں شدید گراوٹ پیدا ہوئی ہے۔ اب شہروں کے نزدیک کے دیہات سے نکلنا انتہائی مشکل ہو کر رہ گیا ہے۔
قندوز شہر میں ایک دوکاندار نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ اب شہر میں طالبان کے حوالے سے کوئی خوف نہیں پایا جاتا کیونکہ انہیں افغان اور امریکی فوج کی شدید کارروائیوں کا سامنا ہے لیکن اب کئی دوسرے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔ ان مسائل کا ذکر کرتے ہوئے نجیب اللہ نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں اور کسی روک ٹوک کا انہیں سامنا نہیں ہے۔ نجیب کے مطابق وہ جو چاہتے ہیں، کرتے ہیں۔ اُس نے مزید بتایا کہ کسی کے پاس معمولی سی دولت کی خبر ہو جائے تو وہ اُس کے پاس پہنچ کر سب کچھ چھین لیتے ہیں۔