افغان مہاجرین کی جرمنی سے ملک بدری کا آغاز
14 دسمبر 2016جرمن خبر رساں جریدے ’ڈیئر شپیگل‘ نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ افغان مہاجرین کو آج فرینکفرٹ سے کابل کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ کیا جا رہا ہے جہاں سے اُنہیں اُن کے آبائی علاقوں میں اُسوقت بھیجا جائے گا جب وہ معقول حد تک محفوظ ہو چکے ہوں گے۔
'ڈیئر شپیگل‘ کے مطابق افغان مہاجرین کے دوسرے گروپ کی کابل واپسی کے لیے اگلا طیارہ پہلے ہی جنوری کے آغاز میں روانہ کرنے کے لیے چارٹر کیا جا چکا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس اور اس سال مجموعی طور پر مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور دیگر ممالک سے جرمنی پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
بڑے پیمانے پر اِن مہاجرین کی جرمنی آمد سے نہ صرف سکیورٹی اور جرمن معاشرے میں اِن کے انضمام سے متعلق خدشات میں اضافہ ہوا بلکہ اے ایف ڈی جیسی مہاجرین مخالف جماعتوں کی حمایت بھی بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و تارکینِ وطن کے اعداد وشمار کے مطابق سن 2016 میں جرمنی آنے والے مہاجرین میں شامی پناہ گزینوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد افغان شہریوں کی رہی۔
جرمن وزارتِ داخلہ کی ایک ترجمان نے مہاجرین کی افغانستان واپسی کے حوالے سے تاریخ کی تصدیق ابھی نہیں کی ہے تاہم اُنہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ اس سال کے آخر تک ایک پرواز کابل روانہ کی جائے گی لیکن احتیاط کے پیشِ نظر اس حوالے سے پیشگی تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ جرمن وزارتِ داخلہ کی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ افغان مہاجرین کی ملک بدری امسال اکتوبر میں کابل حکومت کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت کی جا رہی ہے۔
جرمنی میں حالیہ ہفتوں میں کئی سو افغان مہاجرین نے اپنی وطن واپسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جرمن حکومت بارہ ہزار سے زائد افغانوں کو جلد ہی ان کے وطن واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ابھی تک افغانستان میں زندگی محفوظ نہیں ہے اور اسی باعث کئی خاندان اپنے کم سن بچوں کے ہمراہ جانیں بچانے کے لیے یورپ تک کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو نے بھی مہاجرین کے حوالے سے اپنی پالیسی پر پہلے کی نسبت سخت موقف اختیار کیا ہے۔