اچھوتے سائنسی حقائق تک پہنچ سکتے ہیں: یورپی سائنسدانوں کو امید
26 اکتوبر 2010یورپی ادارہ برائے نیوکلیئر ریسرچ سرن میں قائم دنیا کے سب سے بڑےپارٹیکل کولائیڈر میں، جسے لارج ہاڈران کولائیڈر کا نام دیا گیا ہے، جیسے جیسے مزید طاقت سے ایٹمی ذرات کو آپس میں ٹکرایا جارہا ہے، سائنسدانوں کی امیدیں بھی اسی طرح بڑھتی چلی جارہی ہیں کہ وہ بہت جلد ایک بالکل نئی طبیعات یعنی نیوفزکس کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو اب تک کائنات سے متعلق مفروضوں اور اس کے کام کرنے کے حوالے سے نظریات کو بالکل بدل کر رکھ دے گی۔
متوازی کائنات، مادے کی نامعلوم شکلیں اور مزید سمتیں یا ڈائمنشنز محض سائنس فکشن فلموں کے ہی موضوعات نہیں ہیں بلکہ ان نظریات کو لارج ہاڈران کولائیڈر میں کئے جانے والے تجربات کے ذریعے بھی پرکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فرانس اور سوئٹزلینڈ کی سرحد کے پاس زیر زمین بنائے گئے لارج ہاڈران کولائیڈر کو 10 بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔ سائنسدان 27 کلومیٹر طویل اس کولائیڈر میں ایٹمی ذرات کو ٹکرا کر دراصل ان حالات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے خیال کے مطابق13.7 بلین برس قبل ابتدائے کائنات یعنی بِگ بینگ کے فوری بعد ایک سیکنڈ کے کئی ہزارویں حصے کے لئے موجود رہے ہوں گے۔
سیرن کے ڈائریکٹرجنرل رالف ہوئیر نے گزشتہ ہفتے بتایا کہ اس وقت لارج ہاڈران کولائیڈر میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے یہ ایٹمی ذرات پانچ ملین فی سیکنڈ کے حساب سے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہدف طے شدہ شیڈول سے دوہفتے قبل ہی حاصل کرلیا گیاہے۔
تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک کائنات کی تشکیل یعنی یہ کس طرح کے مادوں سے مل کر بنی ہےکے بارے میں جو علم حاصل کیا گیا ہے، وہ محض چار فیصد سے زائد نہیں ہے، کیونکہ اس کے علاوہ کائنات کے بارے تفصیلات نامعلوم ہیں، اسی لئے ایسے مادوں اور توانائی کو ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادہ اور ڈارک انرجی کا نام دیا گیا ہے۔
اربوں کی تعداد میں ایٹمی ذرات کے ٹکراؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ذرات کے بارے میں تفصیلات لارج ہاڈران کولائیڈر میں لگے چار پارٹیکل ڈیٹیکٹرز اکٹھی کرتے ہیں، جہاں سے یہ معلومات کمپیوٹرز پر منتقل کردی جاتی ہیں۔ جمع شدہ معلومات کو پھر دنیا بھر میں موجود سائنسدانوں اورسائنسی اداروں کو منتقل کردیا جاتا ہے، جو ان سے یہ نتائج اخذ کرنے کے لئے تحقیق میں مصروف ہیں کہ یہ ذرات ٹوٹنے کے بعد کیا شکل اختیار کرتے ہیں۔
سیرن کے محققین کے مطابق ان تجربات کے دوران موجودہ چار سمتوں یا ڈائمنشنز یعنی لمبائی چوڑائی، اونچائی اور وقت کے علاوہ مزید سمتوں کی دریافت بھی ممکن ہے، کیونکہ اتنی زیادہ توانائی سے ٹکرانے کے بعد ذرات کے غائب ہونے اور پھر کلاسیکل چار ڈائمنشنز میں واپس آنے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ ان ذرات کے اس طرح غائب ہونے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اب تک کی کسی نامعلوم سمت میں داخل ہوجاتے ہوں۔
ان سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ممکنہ طور پر مخفی یا متوازی کائنات متوقع طور پر نئی دریافت ہونے والی سمتوں میں ہی موجود ہو۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : عدنان اسحاق