بھارتی فوج کی مظاہرے روکنے کے لیے کشمیری گاؤں میں کارروائی
18 اگست 2016سری نگر سے جمعرات اٹھارہ اگست کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عینی شاہدین اور پولیس کے بیانات کے مطابق یہ فوجی کارروائی بدھ سترہ اگست اور جمعرات اٹھارہ اگست کی درمیانی رات کی گئی، جس دوران فوجیوں نے، جن کا تعلق مبینہ طور پر ایک قریبی بھارتی فوجی کیمپ سے تھا، گاؤں کے باسیوں پر تشدد کیا اور گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
بتایا گیا ہے کہ پلوامہ ضلع میں ایک آرمی کیمپ سے بہت سے فوجی اس گاؤں میں پہنچے، جنہوں نے وہاں مقامی باشندوں کی لاٹھیوں سے پٹائی شروع کر دی اور بہت سے گھروں میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ اس دوران درجنوں افراد زخمی ہو گئے جبکہ ایک ٹیچر، جو شدید زخمی ہو گیا تھا، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
Khrew نامی اس گاؤں کے ایک رہائشی نے، جس نے ممکنہ انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، اے ایف پی کو بتایا کہ فوجیوں نے رات کے اندھیرے میں کی گئی اس کارروائی کے دوران مردوں، عورتوں اور بچوں کی پٹائی کی اور جاتے ہوئے بہت سے نوجوان لڑکوں اور مردوں کو ساتھ بھی لے گئے۔ ’’بعد ازاں ہمیں شبیر منگو نامی ایک ٹیچر کی لاش، جس پر شدید تشدد کے نشانات تھے، صبح کے وقت گاؤں کی ایک گلی میں ملی۔‘‘
دریں اثناء بھارتی فوج کے ترجمان کرنل این این جوشی نے اے ایف پی کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سری نگر سے 25 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف اس گاؤں میں گزشتہ رات چھاپہ مارا گیا اور ’ہم اس واقعے کی چھان بین کر ہے ہیں‘۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ جولائی کے اس واقعے کے بعد سے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں، جب کشمیری عسکریت پسندوں کی تنظیم حزب المجاہدین کا ایک نوجوان اور بہت مقبول کمانڈر برہان وانی بھارتی دستوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
برہان وانی کی موت کے بعد کشمیر کے کئی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کو کئی ہفتوں تک کرفیو بھی لگانا پڑا تھا۔ اس دوران کشمیری مظاہرین کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور سرکاری دستوں کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں سے اب تک 60 سے زائد افراد ہلاک اور اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
پلوامہ کے گاؤں میں بھارتی فوجیوں کی اس شبینہ کارروائی کے بعد ایک مقامی پولیس اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا، ’’اس فوجی چھاپے کے بعد ایک مقامی شخص مردہ حالت میں پایا گیا جبکہ کارروائی کے بعد واپس جاتے ہوئے فوجی قریب 28 مقامی نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔‘‘
ادھر سری نگر کے مرکزی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نذیر چوہدری نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد اس گاؤں کے 24 رہائشیوں کو علاج کے لیے اس ہسپتال لایا گیا۔
اسی ہسپتال میں زیر علاج غلام حسن نامی ایک کشمیری نے اے ایف پی کو بتایا، ’’پہلے بجلی بند کر دی گئی۔ پھر فوجیوں نے ہمارے گھر پر حملہ شروع کر دیا۔ اس دوران انہوں نے ہم سب کو، جن میں میری ایک دس سالہ بھتیجی بھی شامل تھی، پیٹنا شروع کر دیا۔‘‘