جرمنی: افغان مہاجرین کی ملک بدری کے خلاف احتجاجی ریلی
25 اپریل 2017تارکینِ وطن کے تقریباً ساٹھ حامیوں نے گزشتہ روز مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی جرمن پالیسی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جرمن پناہ گزین امدادی ادارے ’پرو ازیل‘ نے پیر کے روز افغان تارکینِ وطن کے ایک گروپ کو میونخ سے کابل لے جانے والی ایک پرواز کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس احتجاجی ریلی کے شرکاء میں باویریا کی صوبائی اسمبلی میں گرین پارٹی کی رکن مارگریٹے باؤزے بھی شامل تھیں، جنہوں نے گزشتہ ہفتے کے طالبان حملے کے تناظر میں حالیہ ملک بدریوں کو ایک ’سیاسی اور انسانی اسکینڈل‘ قرار دیا۔ باؤزے نے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل سے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت افغانستان کی سلامتی کی صورتِ حال کا از سر نو جائزہ لے اور اس شورش زدہ ملک کے ساتھ کیے گئے جلا وطنی کے معاہدے کو معطل کیا جائے۔
حکام نے بتایا ہے کہ باویریا ریفیوجی کونسل کی جانب سے منعقد کی گئی یہ احتجاجی ریلی پُرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوئی۔
جرمن حکومت سن 2016 میں پناہ کی مسترد شدہ درخواستوں کے حامل تارکینِ وطن کو بڑی تعداد میں ملک بدر کر چکی ہے۔ ڈی پورٹ کیے جانے والے پناہ گزینوں میں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں، جنہیں اُن کے ملک کے ’محفوظ‘ علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے۔
تاہم ناقدین اور جرمن پالیمان میں حزبِ اختلاف کے اراکین کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان میں کسی علاقے کو ’محفوظ‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ ہفتے ہی شمالی افغانستان میں ایک فوجی کمپاؤنڈ پر طالبان کے ایک حملے میں 140 فوجی ہلاک جبکہ 160 زخمی ہو گئے تھے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں برلن اور کابل حکومتوں کے مابین افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اِس معاہدے کے بعد جرمن وزارتِ داخلہ نے جرمن صوبوں سے اُن افغان پناہ گزینوں کو ترتیب وار ملک بدر کرنے کے لیے کہا تھا، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔