دوحہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل طالبان فائر بندی کریں، افغان صدارتی ترجمان
10 جنوری 2012پیر کو طلوع ٹیلی وژن نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا: ’’مذاکرات شروع کرنے سے قبل فائر بندی ضروری ہے اور انہیں (طالبان کو) افغان عوام کے خلاف تشدد کا سلسلہ روکنا ہو گا۔‘‘
انہوں نے افغان ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ان خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ افغان حکومت لڑائی ختم کرنے کے عوض پشتون اکثریتی جنوبی صوبوں کو طالبان کے حوالے کر دے گی۔
انہوں نے کہا: ’’اسلامی جمہوریہ افغانستان کسی بھی فریق کی جانب سے اس طرح کی تجویز کبھی قبول نہیں کرے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مستقبل کے مذاکرات سے متعلق تبادلہء خیال کے لیے کسی وفد کو قطر بھجوانا ابھی قبل از وقت ہے۔
افغان اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل یار نے اس سے قبل پیر کو کہا تھا کہ کونسل نے افغان حکومت سے جس قدر جلد ممکن ہو ایک وفد دوحہ بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے تین اہم اپوزیشن رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منعقد کرنے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’ناقابل اعتماد ہیں‘۔
سابق جنرل عبد الرشید دوستم اور افغان نیشنل فرنٹ کے دو اور ارکان نے کہا کہ اس بات کو خارج از امکان قرار دینا سادہ لوحی ہو گی کہ طالبان مذاکرات کو ایک چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور وہ ایک بار پھر منظم ہو جائیں۔
امریکہ افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کے انخلاء سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کا منتظر ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کے مذاکرات افغان حکومت کے تحت ہونے چاہئیں۔
امن مذاکرات سے متعلق یہ تبادلہ ء خیال ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ملک میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
اتوار کو ملک کے جنوبی علاقے میں افغان فوج کی وردی میں ملبوس ایک شخص نے ایک فوجی اڈے پر فائرنگ کر کے ایک امریکی فوجی کو ہلاک کر دیا۔ اس حملے میں ایک امریکی فوجی زخمی بھی ہوا۔
افغان فوج کے ترجمان جنرل محمد ظاہر عظیمی نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور مارا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا وہ افغان فوج کا سپاہی تھا یا پھر کوئی اور شخص جس نے یہ وردی پہن رکھی تھی۔ اگر وہ افغان فوجی تھا تو یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جائے گی کہ اس نے کیوں فائرنگ کی۔‘‘
اس طرح کے دیگر حملوں نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ طالبان افغان پولیس اور فوج کی صفوں میں گھس چکے ہیں۔ تازہ فائرنگ سے رواں ماہ ہلاک ہونے والے نیٹو فوجیوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو افغان سکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ 2014ء میں بین الاقوامی فورسز کے انخلاء سے قبل ملک میں سکیورٹی کے فرائض سنبھال لیں۔ نیٹو کے تربیتی مشن کو امید ہے کہ اس وقت تک ساڑھے تین لاکھ افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو تربیت دی جا چکی ہو گی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل