دوحہ کانفرنس: این جی اوز کا اثر و رسوخ
3 دسمبر 2012دوحہ کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے مندوبین میں مارٹن کائیزر بھی شامل ہیں، جو بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جرمن شاخ میں بین الاقوامی ماحولیاتی پالیسیوں کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ اگرچہ دوحہ کے کانفرنس سینٹر میں اُن کی سرگرمیاں مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے کے قریب اختتام کو پہنچ جاتی ہیں لیکن یہ ابھی اُن کی دن بھر کی مصروفیات کے ختم ہونے کا وقت نہیں ہوتا۔ ابھی انہیں تحفظ ماحول کے علمبردار دیگر کارکنوں کے ساتھ تبادلہء خیال کرنا ہوتا ہے اور پھر اپنے بلاگ کے لیے ایک آرٹیکل بھی لکھنا ہوتا ہے۔
جہاں مختلف ممالک کے سرکاری نمائندوں کے درمیان مذاکرات بہت سست رفتاری سے آگے بڑھتے ہیں اور کہیں دوسرے ہفتے میں ان میں تیزی آتی ہے، وہاں دنیا بھر کی سینکڑوں غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کی مصروفیات پہلے ہفتے سے ہی عروج پر ہوتی ہیں۔ اُن کے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مارٹن کائیزر بتاتے ہیں:’’ایک طرف ہم یہ بات جانتے ہوتے ہیں کہ زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو حقیقی معنوں میں روکنے کے لیے ہمیں بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی اور دوسری طرف ہم ان کانفرنس سینٹرز میں ہونے والی سرگرمیوں کی سست رفتار کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، یہی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔‘‘
مارٹن کائیزر اور اُن کے ساتھیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کانفرنس کے مندوبین کو تحفظ ماحول کے مؤثر اقدامات کے لیے قائل کریں۔ مارٹن کائیزر بتاتے ہیں کہ کئی ایک ملکوں کے سلسلے میں وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہتے ہیں:’’ایک سو سے زیادہ ممالک ایسے ہیں، جو درحقیقت تحفظ ماحول کے لیے مؤثر اور جامع اقدامات ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور جو غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملنے والے تعاون پر شکر گزار بھی ہوتے ہیں۔‘‘
این جی اوز یا غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے مختلف مندوبین کے ساتھ رابطے کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ اعتماد کا ایک رشتہ قائم کرنے کے بعد اُنہیں باقاعدہ شواہد کے ساتھ ماحول کو درپیش خطرات کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہیں۔
دوحہ میں بھارتی وفد کی سربراہ میرا مہرشی نے اس طرح کی ماحولیاتی کانفرنسوں میں غیر سرکاری تنظیموں کے کردار کو سراہتے ہوئے بتایا:’’ہمارے کام کے سلسلے میں این جی اوز کا کردار بہت ہی مثبت ہوتا ہے کیونکہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، ان کے کارکن اُس کا بہت ہی تنقیدی نظر سے جائزہ لیتے ہیں اور اگر ہم کوئی غلطی کریں تو یہ واپس ہمارے پاس آتے ہیں اور اُس کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘‘
کئی ایک ممالک کے وفود خود مختلف این جی اوز کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں اور یہ رجحان بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رجحان کو ان تنظیموں کے نمائندے اس امر کی ایک واضح علامت قرار دیتے ہیں کہ اس طرح کی کانفرنسوں پر غیر سرکاری تنظیموں کا اثر و رسوخ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
A.Allmeling/aa/km