شامی اپوزیشن، علاقائی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا
28 مارچ 2013شام کو دَس نومبر 2011ء کو ہی عرب لیگ سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اب تنظیم میں شام کی نشست شامی اپوزیشن کے حوالے کرتے ہوئے عرب لیگ نے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ ناتہ مکمل طور پر توڑ لیا ہے۔
یہ اقدام بلاشبہ اہم اور غیر معمولی ہے۔ عرب لیگ کو متعدد مرتبہ ایک مردہ تنظیم قرار دیا گیا تھا اور یہ اپنے رکن ممالک کے درمیان انتشار کے لیے بھی بدنام تھی لیکن اس اقدام کے ذریعے اُس نے حیرت انگیز طور پر مؤثر انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ اقدام اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے عرب لیگ نے ایک طرح سے اسد حکومت کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ عرب لیگ کے اسی اقدام کے باعث اب شامی اپوزیشن اتحاد تمام بین الاقوامی فورمز پر شام کی نمائندگی کا واحد دعویدار بن کر سامنے آ رہا ہے۔
قطر کا متنازعہ اور مسائل سے عبارت کردار
تاہم اسد حکومت کے ساتھ عرب لیگ کے تعلقات اُس بے چینی پر پردہ نہیں ڈال سکتے، جو شامی اپوزیشن اتحاد کی صفوں میں شامی تنازعے میں چند ایک علاقائی ممالک کے کردار کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر چھوٹی سی ریاست قطر کا کردار گزشتہ چند مہینوں سے تنقید کی زَد میں ہے۔
معدنی وسائل سے مالا مال قطر عرب دنیا میں انقلابی تحریکوں کے بعد کے دور پر اپنی چھاپ لگانے اور اِن تحریکوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوحہ کا بلند عزائم رکھنے والا شاہی خاندان اپنی چیک بُک سفارت کاری کی مدد سے قطر کو ایک علاقائی طاقت کی حیثیت سے مستحکم کر دینا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی قطر کے حق میں جا رہی ہے کہ مصر اور سعودی عرب جیسی وہ طاقتیں یا تو کمزور ہو چکی ہیں یا پھر اپنے ہی معاملات میں بہت زیادہ اُلجھی ہوئی ہیں، جو اب تک عرب دُنیا میں قائدانہ کردار ادا کرتی رہی ہیں۔
منگل کو شامی اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مُعاذ الخطیب نے عرب لیگ میں قطر کی خارجہ سیاست کے بالا دست کردار اور سیاسی اسلام کی قوتوں کے ساتھ اُس کے ’عملیتی اتحاد‘ پر اپنی ناخوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ خلیجی عرب سلطنتیں جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کر رہیں۔ اس سے پہلے جمہوری سوچ کے حامل الخطیب کے خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے قطر نے اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر قدرے گمنام آئی ٹی ماہر غسّان ہیتو کو نئی عبوری حکومت کا سربراہ بنوانے کی کوشش کی۔ ہیتو کو اسلام پسند قوتوں کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔
شام کو ’تعطل کی تباہ کن صورتِ حال‘ سے نجات دلائیں
قطر کی طاقت کی پالیسی نہ صرف شامی اپوزیشن کی نازُک اکائی کے لیے بلکہ اسد آمریت کے خلاف عوامی بغاوت کے جمہوری اہداف کے لیے بھی ایک خطرہ ہے اور اسی لیے جرمنی اور یورپ کے لیے بہتر یہ ہو گا کہ وہ اب فری سیریئن آرمی کی جانب اپنا محتاط طرزِ عمل تبدیل کر لیں۔
یورپی ممالک کو سب سے پہلے یہ کرنا چاہیے کہ وہ آزاد کرائے گئے علاقوں میں سویلین تعمیر نو کے لیے زیادہ وسائل فراہم کریں۔ فری سیریئن آرمی کے اندر اعتدال پسند قوتوں کے لیے فوجی امداد کو بھی اب مزید شجر ممنوعہ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
شام میں اسد حکومت اور اُس کے مخالفین کے درمیان جاری کشمکش اب ایک ایسی تباہ کن نہج پر پہنچ چکی ہے، جہاں کسی بھی فریق کو دوسرے پر فیصلہ کن غلبہ حاصل نہیں ہے۔ ان حالات سے شام کو نجات دلائی جانی چاہیے۔ اگر یورپی ممالک شامی تنازعے کے حوالے سے اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جمہوریت دشمن اور انتہائی کٹر اسلام پسند قوتیں زور پکڑ جائیں گی۔
L.Mudhoon/aa/ai