شام میں امریکی فوجی تعینات کر دیے گئے
9 مارچ 2017واشنگٹن پوسٹ کی خبروں کے مطابق یہ فوجی داعش کے خود ساختہ دارالحکومت الرقہ میں جاری آپریشن میں حصہ لیں گے اور ان کی تعیناتی عارضی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام اس امر کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وائٹ ہاؤس پینٹاگون کے لیے اپنے فیصلے کرنے میں زیادہ آزادی کا حامی ہے۔
اس اقدام کو شام میں روایتی امریکی افواج کے ليے ایک اہم اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت امریکا کے پانچ سو اسپیشل آپریشن فوجی علاقے میں موجود ہیں اور ان بری فوجیوں کا کام عرب کرد جنگجوؤں کو تربیت فراہم کرنا ہے۔ کرد جنگجوؤں کا یہ اتحاد داعش کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے۔
امریکی حکام کے اندازوں کے مطابق الرقہ میں تقریبا چار ہزار جہادی موجود ہیں جبکہ اس شہر میں موجود عام شہریوں کی تعداد تقریبا تین لاکھ ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ امریکی آرٹلری میرینز ان کرد جنگجوؤں کی مدد کریں گے، جو الرقہ کے قریب ہیں۔
دوسری جانب خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں قیام امن سے متعلق مذاکرات کا اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پانچواں دور تیئس مارچ کو شروع ہو گا۔ شام کے لیے عالمی ادارے کے خصوصی مندوب شٹیفان دے مستورا نے بتایا کہ جنیوا میں دو ہفتے بعد ہونے والی اس بات چیت میں دمشق حکومت اور شامی اپوزیشن دونوں کے اعلیٰ نمائندے شریک ہوں گے۔
اس سے قبل دے مستورا نے نیو یارک ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کی تازہ ترین صورت حال سے متعلق اپنی رپورٹ بھی پیش کی۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نِکی ہیلی نے کہا کہ ان امن مذاکرات کا مقصد بنیادی طور پر شامی تنازعے کا سیاسی حل تلاش کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ ملک دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بنے۔