قالین سازی کی افغان صنعت مشکل کا شکار
افغانستان کی کارپٹ بنانے کی قدیم صنعت طالبان کے ساتھ جنگ اور پاکستان کی جانب سے سرحدی نگرانی بڑھانے کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ گزشتہ ایک سال میں قالینوں کی فروخت میں لگ بھگ پچاس فیصد کمی آئی ہے۔
افغان قالین خوبصورت اور آرام دہ
افغان قالین دنیا بھر میں خوبصورتی اور اعلیٰ معیار کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اب بھی افغان اقتصادیات میں کارپٹس کی برآمدات ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی میں یہ برآمدات ستائس فیصد سے کم ہو کر چھ فیصد رہ گئی ہے۔
قالین کی صنعت متاثر
جنگ، مفلسی اور ذرائع آمد ورفت کی کمی نے قالین کی صنعت کو متاثر کیا ہے جس کی تاریخ پچیس سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اپنی والدہ کو افغانستان سے قالین بھجوایا تھا۔
قالین ساز فیکٹری
کابل کی ایک قالین ساز فیکٹری میں خواتین اون بنتی ہیں اور مرد اون کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس فیکٹری کے مینیجر دلجام منان کا کہنا ہے،’’ ہم نے بہت سے خریداروں کو بلایا ہے لیکن وہ نہیں آتے کیوں کہ وہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔‘‘
تشدد کے واقعات میں اضافہ
افغستان میں حالیہ کچھ عرصے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سن دوہزار سولہ اور سترہ کے درمیان افغانستان کی رجسٹرڈ برآمدات میں قالینوں کی ایکسپورٹ چوتھے نمبر پر تھی اور ان کی کل مالیت 38 ملین ڈالر تھی۔ ان میں سے 85 فیصد قالین پاکستان کو برآمد کیا گیا تھا۔
افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی
پہلے افغانستان میں قالین کی برآمدات 89.5 ملین ڈالر تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ اندرونی طور پر بھی افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی۔ بہت کم افغان شہری ستر سے ڈھائی سو ڈالر فی سکوائر میٹر قالین خرید نے کی سکت رکھتے ہیں۔ آٹھ برس قبل جب افغانستان میں نسبتاً امن تھا تب قالین کی برآمدات 150 ملین ڈالر تھی۔
پاکستانی تاجر
افغان کارپٹس، نامی ایک دکان کے مالک پرویز حسین کا کہنا ہے، ’’پاکستانی تاجر افغانستان سے کارپٹ خرید کر دس سے پندرہ فیصد کماتے ہوئے ان قالیوں کو برآمد کر دیتے ہیں۔‘‘ حسین کے بقول افغانستان میں قالینوں کو دھونے کا طریقہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کارپٹ یہاں آتے ہیں، دھلتے ہیں اور برآمد کر دیے جاتے ہیں۔ حسین کی رائے میں بہت سے افغان تاجر پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور یہاں سے قالین درآمد کرتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات
پاکستان اور اس کی بندرگاہوں پر انحصار، سرحد پر بڑھتے کنٹرول اور دہشت گردوں کی در اندازی کی وجہ سے افغان تاجر مشکلات کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس طورخم بارڈر چالیس دن تک بند رہا تھا۔
یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے
کابل میں دکاندار احسان کا کہنا ہے کہ اب کابل میں بہت کم غیر ملکی نظر آتے ہیں۔ اس کی دکان میں 50 سال پرانے قالین بھی دستیاب ہیں۔ احسان کا کہنا ہے کہ پہلے ایک دن میں وہ پانچ قالین فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن اب بہت مشکل ہے کیوں کہ یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ ب ج/ ع ا، روئٹرز