میونخ میلہ: سینما بمقابلہ کمپیوٹر گیمز
8 جولائی 2013بنیادی سوال یہ ہے کہ مستقبل میں ہماری تفریح کی صورت کیا ہو گی؟ اس سال کے میونخ فلمی میلے میں مدعو کیے گئے مہمانوں میں فلوریان شٹاڈل باؤر بھی شامل تھے، جو کمپیوٹر گیمز تیار کرنے والی ایک کامیاب فرم 'Deck13' کے ناظم الامور ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’کمپیوٹر گیمز کی حیثیت پہلے ایک سب کلچر کی سی تھی تاہم گزشتہ دس برسوں کے دوران انہیں اصل کلچر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ویڈیو گیمز کے شعبے میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ فلمساز بھی اس نئے میڈیم میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
گزشتہ سال سے میونخ فلمی میلے کی انچارج ڈیانا اِلژینے ہیں، جنہوں نے سینما اور گیمز کے درمیان قدرِ مشترک کو جانچنے کے لیے میلے کے پروگرام میں ’گیمز‘ کے نام سے ایک نیا حصہ مختص کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں: ’’گیمز دیکھنے میں بھی، اپنی کہانی کے اعتبار سے بھی اور اپنے ماحول کے لحاظ سے بھی فلموں کے ساتھ بڑی حد تک ملتی جلتی ہیں۔‘‘ امسالہ میلے کے موقع پر سینما اور گیمز کے موضوع پر مباحثوں اور ورکشاپس کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جن میں دونوں شعبوں کے نمائندے شریک ہوئے۔
فلیپ شال بھی بنیادی طور پر فلمساز ہیں لیکن ایک عرصے سے کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی لیے اُنہیں میلے کے ’گیمز‘ سیکشن کا انتظام سونپا گیا تھا۔ شال کہتے ہیں کہ فلموں کا اسکرپٹ لکھنے والے گیمز بھی تیار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح فلموں میں سیٹ ڈیزائننگ کرنے والے بھی ویڈیو گیمز کی تیاری میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر پہلے سے ایسا ہو بھی رہا ہے۔ گیمز میں پیش کی جانے والی موسیقی کے حوالے سے بھی شال کہتے ہیں: ’’میرا جاننے والا کوئی میوزک کمپوزر ایسا نہیں ہے، جس نے کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کے لیے موسیقی نہ تخلیق کی ہو۔‘‘ گزشتہ چند برسوں کے دوران کمپیوٹر گیمز کی صنعت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ایک ایسے کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے، جس کا حجم اربوں ڈالر بنتا ہے۔
امسالہ میونخ میلے کے دوران ایسی فلمیں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئیں، جن کا کمپیوٹر اور ڈیجیٹل دور کے ساتھ کم و بیش براہ راست تعلق بنتا ہے۔ 1982ء کی فلم 'Tron' وہ پہلی فلم تھی، جس میں کمپیوٹر اینیمیشن کی مدد سے تخلیق کیے گئے مناظر شامل کیے گئے تھے۔ 1983ء کی فلم ’وار گیمز‘ میں پہلی مرتبہ کمپیوٹر کی مدد سے تخلیق کردہ کردار نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کی کہانی کمپیوٹر کے شوقین ایک ایسے نوجوان کی تھی، جو ایک خفیہ امریکی کمپیوٹر ہیک کر لیتا ہے اور پھر امریکی فوج اور سوویت فورسز کے درمیان پھنس کر رہ جاتا ہے۔ کمپیوٹر ماہر ایڈورڈ سنوڈن کی وجہ سے یہ فلم آج کل کے حالات کی وجہ سے زبردست اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ تاہم جہاں 'Tron' اور ’وار گیمز‘ کو ڈیجیٹل دنیا میں پتھر کے زمانے کی فلمیں کہا جا سکتا ہے، وہاں اس حوالے سے جدید ترین فلم ’سکاٹ پلگرم پوری دنیا کے مقابلے پر‘ ہے، جو 2010ء میں ریلیز ہوئی تھی اور جس میں بظاہر ایک کمپیوٹر گیم کو فلم کی اسکرین پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
برلن کے کمپیوٹر گیمز تیار کرنے والے ایک ادارے سے وابستہ پاٹریک راؤ کے خیال میں گیمز کے شعبے میں کئی نئی ہنگامہ خیز تکنیکس آ چکی ہیں، مثلاً ’سیکنڈ اسکرین کا اصول‘، جس کے تحت اپنے گھر میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھا کوئی بھی شخص اپنے ٹیبلٹ کمپیوٹر یا پھر سمارٹ فون کے ذریعے ٹی وی پر چلنے والے پروگرام کا حصہ بن سکتا ہے۔
راؤ کے خیال میں سینما اور کمپیوٹر گیمز میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ فلم کو لوگ آرام سے ٹیک لگا کر دیکھتے ہیں، اُنہیں خود کچھ نہیں کرنا پڑتا، حتیٰ کہ کوئی فیصلہ تک بھی نہیں کرنا پڑتا۔ تاہم کمپیوٹر گیمز میں لوگوں کو مختلف امکانات میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ چیز لازمی طور پر تو نہیں لیکن بہرحال ذہنی دباؤ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
میونخ میلے میں جمع ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق تھا کہ آنے والے برسوں میں سینما اور کمپیوٹر گیمز زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آتے چلے جائیں گے۔
رپورٹ: یوخن کیورٹن / اے اے
ادارت: مقبول ملک