ہیٹی کے متاثرینِ ہیضہ کا اقوام متحدہ کے خلاف مقدمہ
10 اکتوبر 2013ہیٹی میں اکتوبر 2010ء میں ہیضے کی وبا پھیلنے سے ساڑھے چھ لاکھ کے قریب افراد اس مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور اُس وقت اِس وبائی مرض کے باعث کم از کم 8 ہزار 300 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ہیٹی کو اب بھی ہیضے کے اس وبائی مرض کا سامنا ہے۔
متاثرین کی جانب سے مقدمہ دائر کرنے والی وکیل ایرا کرزبان نے انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں کے نمائندگان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اس حوالے سے کہا،’’ ہیٹی اس وقت دنیا میں سب سے بری طرح ہیضے کی وبا کی لپیٹ میں ہے۔‘‘
انہوں نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا،’’اگر ہم گذشتہ سو برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس سے قبل ہیٹی میں ہیضے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ یہ اقوام متحدہ کے امن دستے تھے، جو ہیٹی میں ہیضے کی وبا لے کر آئے۔‘‘
کرزبان کا مزید کہنا تھا کہ ہیضے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے امن دستوں نے جو کیا ہے اب اُس کے سمیٹنے کی ذمہ داری بھی اسی ادارے پر عائد ہوتی ہے۔
ہیٹی کے متاثرین ہیضہ ایک عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ انہیں ہرجانہ دے کیونکہ وہ اپنے ملک میں ہیضے کی وبا پھیلنے کا ذمہ دار اقوام متحدہ کے امن دستوں کو قرار دیتے ہیں.
اس سال کے اوائل میں عالمی ادارے کی جانب سے واضح کر دیا گیا تھا کہ ہیٹی کے متاثرین کو کسی بھی قسم کا ہرجانہ ادا نہیں کیا جائے گا، جس کے بعد یہ دعوی دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اب متاثرین نے نیو یارک شہر کے جنوبی ضلع کی ایک عدالت میں 2.2 بلین ڈالر کی رقم کا مطالبہ کیا ہے۔ مقدمے میں یہ رقم ہیٹی حکومت کو فراہم کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے تا کہ ہیٹی سے ہیضے کی وبا کا خاتمہ کیا جا سکے۔
یہ مقدمہ ہیٹی کے امریکی نژاد شہریوں کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔ مقدمے میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک دریا Artibonite کو اقوام متحدہ کے امن دستوں کے اراکین رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے رہے۔
ہیضے کی یہ وبا متعین نیپالی فوجیوں کی وجہ سے پھیلی تھی۔ ہیٹی میں کی جانے والی مقامی انکوائری کے مطابق نیپالی فوجی دریا کے کنارے پرتعینات تھے۔ اس تعیناتی کے دوران انسانی فضلے سمیت دوسرا کاٹھ کباڑ اور غلاظت دریا میں پھینکتے رہے تھے۔