یوکرائن میں روسی دستے، ماسکو میں ایوان بالا کی طرف سے منظوری
1 مارچ 2014اس سلسلے میں روسی پارلیمان کے ایوان زیریں دوما میں درخواست دیا جانا لازمی نہیں تھا۔ فیڈریشن کونسل کہلانے والے ایوان بالا کی طرف سے منظوری کے بعد یہ فیصلہ صدر پوٹن خود کسی مناسب وقت پر کریں گے کہ کریمیا میں ماسکو کے فوجی دستے اگر تعینات کیے جائیں گے تو کب۔ فوجی دستوں کی تعیناتی کی منظوری کا مطلب یہ نہیں کہ روسی فوجی دستے ہر حال میں فوری طور پر یوکرائن روانہ بھی دیے جائیں گے۔
قبل ازیں یوکرائن کے جنوبی خطے کریمیا کے لیے چنے گئے نئے وزیراعظم نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے مدد طلب کی تھی کہ وہ اس علاقے میں امن و سکون بحال کرنے کے لیے مدد کریں۔ کریملن نے کہا تھا کہ کریمیا کی درخواست رد نہیں کی جائے گی۔ کریمیا کی طرف سے مدد طلب کیے جانے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ملکی پارلیمان کے ایوان بالا سے درخواست کر دی کہ حکومت کو یوکرائن میں روسی فوجی تعینات کرنے کی اجازت دی جائے، جس کے بعد ہفتے کے دن ایوان بالا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کریملن کی طرف سے صدر پوٹن کے بیان کا حوالہ دیا تھا۔ جس میں صدر پوٹن نے کہا تھا کہ یوکرائن کے غیر معمولی حالات اور روسی شہریوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کے پیش نظر انہوں نے فیڈریشن کونسل کو درخواست کر دی ہے کہ یوکرائن میں روسی فوجوں کے استعمال کی اس وقت تک اجازت دی جائے جب تک وہاں سیاسی صورتحال معمول پر نہیں آ جاتی۔
کریمیا کے نئے وزیراعظم کی ماسکو سے مدد کی درخواست
کریمیا کے لیے چنے گئے نئے وزیراعظم کی طرف سے یہ درخواست کییف حکام کے ساتھ معاملات میں تعطل کے تناظر میں کی گئی تھی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیرگئی اکسیونوف Sergiy Aksyonov نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا، ’’شہریوں کی زندگی اور ان کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے، میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے کہتا ہوں کہ وہ کریمیا کے علاقے میں امن اور سکون بحال کرنے کے لیے مدد کریں۔‘‘
کریمیا یوکرائن کے اندر ایک نیم خودمختار ریاست ہے۔ اکسیونوف کو کریمیا کے مقامی ارکان پارلیمان نے وزیراعظم چنا تاہم اس فیصلے کی توثیق یوکرائن میں سابق صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی نئی عبوری حکومت کی طرف سے نہیں کی گئی۔ اکیسونوف نے اپنے خطاب میں کریمیا کے تمام انتظامی اداروں کے سربراہوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ براہ راست ان کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو اہلکار ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے وہ اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں۔
کریمیا کی درخواست رد نہیں کی جائے گی، ماسکو
کریمیا کی طرف سے اس درخواست کے جواب میں ماسکو حکام نے کہا تھا کہ کریمیا کے وزیراعظم کی طرف سے مدد کی درخواست کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کریملن انتظامیہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا روسی ایوان بالا کی طرف سے فیصلے سے قبل بتایا تھا، ’’روس اس درخواست کو نظر انداز نہیں کرے گا۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کریمیا کے دارالحکومت سِمفروپول میں آج ہفتہ یکم مارچ کو مکمل جنگی لباس میں ملبوس درجنوں مسلح اہلکار گشت کر رہے ہیں۔ ایک روز قبل اسی علاقے میں اسی طرح کے مسلح اہلکاروں نے ایئرپورٹ اور حکومتی عمارات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
روس نے مزید فوجی کریمیا بھیج دیے ہیں، یوکرائن
یوکرائن کے وزیر دفاع نے آج ہفتہ یکم مارچ کو کہا ہے کہ روس نے حال ہی میں ی چھ ہزار مزید اہلکار یوکرائن بھیجے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کریمیا کے علاقے میں یوکرائن کے فوجی ہائی الرٹ پر ہے۔ وزیر دفاع ایہور تین یُخ نے کییف میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
یوکرائن کی نئی عبوری حکومت نے ماسکو پر الزام لگایا ہے کہ وہ کریمیا کے علاقے میں اپنے فوجی تعینات کر رہا ہے۔ تاہم روس کا کہنا ہے کہ اس نے یوکرائن کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی اور اس کی فوجیں وہاں پہلے سے موجود ہو سکتی ہیں۔
جمعہ 28 فروری کو اقوام متحدہ ميں روسی سفير وٹالی چرکين نے اپنے ايک بيان ميں کہا کہ يوکرائن کے نيم خود مختار علاقے جزيرہ نما کريميا ميں روسی فوج کی سرگرمياں ماسکو اور کييف کے مابين طے شدہ معاہدے کے تحت ہو رہی ہيں۔ امريکی شہر نيو يارک ميں سلامتی کونسل کے ايک اجلاس کے بعد رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے چرکين نے کہا، ’’ہم طے شدہ معاہدے کے فريم ورک کے مطابق کام کر رہے ہيں۔‘‘
یوکرائن میں فوجی مداخلت کی قیمت چکانا پڑے گی، اوباما
دوسری طرف امريکی صدر باراک اوباما نے متنبہ کہا ہے کہ اگر کييف کی خودمختاری کو کوئی بھی ٹھيس پہنچائی گئی، تو اِس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر اوباما نے اٹھائيس فروری کے روز وائٹ ہاؤس ميں رپورٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اِس سلسلے ميں عالمی برادری کے ساتھ ہے کہ اگر يوکرائن ميں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کی گئی، تو اِس کی قيمت چکانا پڑے گی۔ اوباما کے بقول روس کی جانب سے يوکرائنی سرزمين پر عسکری سرگرميوں کے سبب وہ شديد تشويش کا شکار ہيں۔ ان کا کہنا تھا کہ يوکرائن کی خودمختاری کی خلاف ورزی عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔