1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2024: پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت

29 دسمبر 2024

2024 پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے قابل ذکر رہا۔ پاکستانی جامعات اور محققین کی کئی اہم تحقیقات کو بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔

https://p.dw.com/p/4oXlw
رواں برس متعدد پاکستانی سائنسدانوں کو ان کی تحقیقات پر بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا
رواں برس متعدد پاکستانی سائنسدانوں کو ان کی تحقیقات پر بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیاتصویر: Ahmad Kamal/Xinhua News Agency/picture alliance

پاکستان میں سائنسی تحقیق دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے بہت سست ہے جس ایک بڑی وجہ فنڈز کی کمی اور تحقیق کے لئے درکار آلات و معیاری تجربہ گاہوں کا فقدان ہے۔ تاہم 2024 اس حوالے سے قابل ذکر رہا۔ اس برس متعدد پاکستانی سائنسدانوں کو ان کی تحقیقات پر بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 

یہاں ڈی ڈبلیو ان اعزازات اور سائنسی پیش رفت کا ایک جائزہ پیش کر رہا ہے۔

نسٹ کے 43 محققین ورلڈ ٹاپ ٹو پرسنٹ میں شامل

اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے جاری کی گئی ایک رینکنگ میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد کے 43 محققین کو عالمی سطح پر ٹاپ ٹو پرسنٹ سائنسدانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

اس فہرست میں دنیا بھر سے 1 لاکھ سے زائد سائنسدان شامل کیے گئے ہیں۔ یہ درجہ بندی تحقیقات پڑھنے والوں کی تعداد، ہرش انڈیکس اور دیگر تکنیکی عوامل کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔

پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے کیوں؟

نسٹ کے ان 43 محققین کا تعلق سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت اور انجینئرنگ کے شعبہ سے ہے۔ گذشتہ برس نسٹ کے 31 محققین کو اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ 2024 میں یہ تعداد بڑھنے سے نسٹ کی عالمی سطح پر سائنسی تحقیق میں پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ اس سے پاکستان میں ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔

لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز(لمز)
لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز(لمز)

 ڈاکٹر زبیر خالد کی ٹیم کے لئے گورڈن بیل پرائز کا اعزاز

ڈاکٹرزبیر خالد لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز(لمز) سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر زبیر بین الاقوامی سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ ہیں جس نے رواں سال " گورڈن بیل پرائز" حاصل کیا ہے۔ اس ایوارڈ کو سپر کمپیوٹنگ کا نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر زبیر کی ٹیم کے سربراہ کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی   سعودی عرب سے منسلک سائنسدان ڈاکٹر سمیح عبداللہ تھے۔ اس ٹیم نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سیلاب، خشک سالی اور دیگر قدرتی آفات کی درست اور جلد پیشن گوئی کرتا ہے۔ اس ماڈل کو عالمی اور علاقائی دونوں سطح پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر زبیر خالد کے مطابق اس سے پہلے تحقیق اور تجزیئے کے لئے جو ماڈلز استعمال کئے جاتے تھے ان میں بہت زیادہ مقدارمیں ڈیٹا فیڈ کرنا پڑتا تھا۔ جس میں وقت بھی زیادہ لگتا تھا اور کئی دفعہ نتائج غلط آتے تھے۔

سولر ٹیکنالوجی میں پاکستانی سائنسدان کے دو ورلڈ ریکارڈ اور مستقبل میں شمسی توانائی کی اہمیت

وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کا بنایا ہوا یہ ایک کمپیکٹ ماڈل ہے جو دیگر کلائی میٹ ماڈلز کے انرجی فوٹ پرنٹ کو کم کرتا اور درست پیشن گوئی کرتا ہے۔ گورڈن بیل پرائز کا اعلان کرنے والی ایسوسی ایشن آف کمپیوٹنگ مشینری کے مطابق ڈاکٹر زبیر خالد کی ٹیم کا ماڈل ارتھ سسٹم ماڈلز کے آؤٹ پٹ کو بڑھاتا اور  ڈیٹا کو پیٹا بائٹس تک ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچے
تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچےتصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

آغا خان یونیورسٹی کا جین تھراپی منصوبہ

آغاخان یونیورسٹی کراچی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم جدید جین ایڈیٹنگ تکنیک کا استعمال کر کے تھیلسیمیا اور سکل سیل انیمیا کے علاج کے لئے کوشاں ہے۔ اس منصوبے کو "ویلکم لیپ فنڈ" نے ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

اس منصوبے کی سربراہی آغا خان یونیورسٹی  سے منسلک ڈاکٹر افسر میاں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تھیلسیمیا اور سکل سیل انیمیا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں ان امراض کا علاج خون کی تبدیلی یا اسٹیم سیل تھراپی سے کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خون کی مسلسل تبدیلی ایک تھکا دینے والا عمل ہے جبکہ  اسٹیم سیل تھراپی کافی مہنگی ہے اور بعد میں اس کے  مضر اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔

پاکستانی طلباء کا کارنامہ، چودہ ممکنہ سیارچے دریافت کر لیے

 ڈاکٹر افسر میاں کے مطابق ان کی ٹیم جدید جین ایڈیٹنگ تکنیک جیسے بیس اور پرائم ایڈیٹنگ کی مدد سے ان امراض کا مقامی سطح پرعلاج کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ جین ایڈیٹنگ تکنیک دنیا بھر میں کلینیکلی استعمال کی جارہی ہے اور سٹیم سیل تھراپی کی نسبت سستی اور انتہائی مؤثر ہے۔

پاکستانی گریٹا تھن برگ

چودہ سالہ زنیرہ کا تعلق بلوچستان کی ڈسٹرکٹ حب سے ہے۔ وہ ایک کلائی میٹ ایکٹیوسٹ ہیں جنھیں"پاکستانی گریٹا تھن برگ "بھی کہا جاتا ہے۔ زنیرہ نے گزشتہ ماہ باکو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ وہ کانفرنس میں شریک ہونے والی کسی ملک کی کم عمر ترین نمائندہ تھیں۔

پاکستانی سائنسدان کی تحقیق نے دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو روکنے کا عالمی تحقیقی مقابلہ جیت لیا

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان  کی ماحولیاتی پالیسیوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ زنیرہ کے مطابق نوجوان ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لہذا انھیں پالیسی سازی میں نمائندگی دینا ضروری ہے۔

مارچ 2024 میں پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ بیک وقت سات انسانی اعضاء کو منتقل اور محفوظ کیا گیا
مارچ 2024 میں پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ بیک وقت سات انسانی اعضاء کو منتقل اور محفوظ کیا گیاتصویر: Ute Grabowsky/photothek/picture alliance

آرگن ٹرانسپلانٹ میں نئی تاریخ رقم

 مارچ 2024 میں پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ بیک وقت سات انسانی اعضاء کو منتقل اور محفوظ کیا گیا۔ یہ کارنامہ بحریہ سفاری ہسپتال راولپنڈی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی اینڈ لیور کے ڈاکٹروں نے مشترکہ طور پر سر انجام دیا۔

بحریہ سفاری ہسپتال میں زیر علاج 36 سالہ مریض عزیر یاسین کا دماغ مردہ قرار دیئے جانے کے بعد وہ وینٹی لیٹر پر زندہ تھے۔ ان کی وصیت کے مطابق ان  کی دونوں آنکھیں، لبلبہ،  گردے اور جگر کو موت سے پہلے جسم سے الگ کر کے محفوظ کر دیا گیا تھا۔

معدے کے جراثیم اور ذیابیطس: پاکستانی محقق کی سنگ میل تحقیق

ان اعضاء کو بعد ازاں دیگر مریض افراد کے جسم میں کامیابی کے ساتھ پیوند کر کے انھیں نئی زندگی دی گئی۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس سے مستقبل میں موت سے قبل اعضاء عطیہ کرنے کے رجحان میں تیزی آئے گی۔

معذور افراد کے لئے "تھاٹ ٹو سپیچ" ٹیکنالوجی

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے سائنسدانوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک "تھاٹ ٹو سپیچ" سسٹم تیار کیا ہے۔ یہ سسٹم اے ایل ایس، ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ اور دیگر اعصابی امراض سے متاثرہ ایسے افراد کی مدد کر سکتا ہے جوبات چیت کرنے سے قاصر ہیں۔

نسٹ کے شعبۂ الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ کے سائنسدانوں کا تیار کردہ یہ تھاٹ ٹو ٹیکسٹ سسٹم جدید ڈیپ لرننگ اور مشین لرننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی دماغ کو پڑھتا اور سوچ کو رئیل ٹائم میں تحریر کی صورت میں پیش کرسکتا ہے۔ محققین کے مطابق براہ راست برین کمپیوٹر انٹر فیس ٹیکنالوجی سے معذور افراد کے لئے نئی راہیں ہموار ہوں گی ۔  

حکومت کی عدم دلچسپی مایوس کن

ایک جانب پاکستانی محققین اور جامعات میں ہونے والی سائنسی تحقیق کو عالمی سطح پر پزیرائی مل رہی ہے تو دوسری طرف وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سائنسی پیش رفت میں عدم دلچسپی ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس کی واضح مثال چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی میں قائم نانو بایوٹک سینٹر کی عجلت میں بندش ہے۔ واضح رہے کہ اس شعبے سے متعلق یہ پاکستا ن کی کسی یونیورسٹی میں قائم واحد سینٹر تھا۔ اس کی بندش سے نانو میڈیسن، بایو فارما سیوٹیکل اور ٹشو انجینئرنگ کی فیلڈز میں ہونے والی مقامی تحقیق کو شدید دھچکا لگا ہے۔

یہ مرکز پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا جس نے تھوڑے سے عرصے میں بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل کی تھی۔ اس سینٹر میں 30 سے زائد طلبہ کی تحقیقی تربیت کی جارہی تھی جس میں برطانیہ کی کئی معروف جامعات تکنیکی معاونت بھی فراہم کر رہی تھیں۔