ارونا چل پردیش کی کانگریسی حکومت بحال، مودی کو ایک اور دھچکا
13 جولائی 2016سیاسی ناقدین تقریباً دو ماہ کے دوران مودی حکومت کے لیے یہ دوسرا بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ بدھ کے دن سپریم کورٹ نے مرکز ی حکومت کی طرف سے معزول کی گئی کانگریس کی ریاستی حکومت کو بحال کرنے کا حکم سنا دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے بارہ مئی کو اتر اکھنڈ میں وزیر اعلی ہریش راوت کی قیادت والی کانگریسی حکومت کو بحال کردیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا آج کا فیصلہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے پانچ رکنی آئینی بنچ نے متفقہ طور پر سنایا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس پیشرفت کے کافی دور رس اثرات مرکز اور ریاستی حکومت کے تعلقات کے علاوہ آئندہ سال کئی صوبوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اروناچل پردیش میں 15 دسمبر سن 2015 کی پوزیشن بحال کی جائے۔ اُس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی اور نبام توکی وزیر اعلیٰ تھے۔ دراصل ریاست میں اُس وقت سیاسی بحران پیدا ہو گیا تھا، جب ساٹھ رکنی اسمبلی میں حکمراں کانگریس کے سینتالیس میں سے اکیس ممبران نے وزیر اعلیٰ کو برطرف کرنے کا مطالبہ کردیا تھا۔
’سیاسی رسہ کشی کی وجہ‘
ریاست میں جاری سیاسی تعطل کے مدنظر اس وقت مرکزی حکومت نے چوبیس جنوری کو صدر راج کی سفارش کردی تھی۔ کئی ہفتوں تک جاری سیاسی بحران کے بعد گورنر راج کھووا نے بی جے پی کے حمایت یافتہ کانگریس کے باغی گروپ کے رہنما کالیکھو پل کو انیس فروری کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا حلف دلا دیا تھا۔
کانگریس نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ گورنر کا اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا پورا عمل غیر آئینی تھا اور انہوں نے اپنے آئینی اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
کانگریس نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے ریاستی گورنر کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔
کانگریس کے ترجمان کپل سبل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلے نے وزیر اعظم مودی کے کانگریس سے پاک ہندوستان کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے اور یہ فیصلہ آئین کی خلاف ورزی کرکے کانگریس کی حکومتوں کو گرانے کی سازش کرنے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔
یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، سونیا گاندھی
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اروناچل پردیش معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی اس سے مرکزی حکومت اقتدار کا غلط استعمال کرنے سے باز آ جائے گی۔
سونیا گاندھی کا مزید کہنا تھا اس فیصلے سے آئینی وقار اور جمہوری قدروں کی خلاف ورزی کرنے والوں کی شکست ہوئی ہے اور اس سے جمہوری قدریں مضبوط ہوں گی۔
برطرف وزیر اعلی نبام ٹوکی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’’گورنر نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر میری حکومت معزول کی تھی۔ ہمیں آج سپریم کورٹ سے انصاف مل گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور ملک کے عوام کو اسی کی توقع تھی۔‘‘
دھچکا نہیں ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی
بی جے پی نے کہا ہے کہ اروناچل پردیش میں کانگریس حکومت بحال کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے اسے کوئی دھچکا نہیں لگا ہے۔ پارٹی کے قومی سیکرٹری شری کانت شرما کا کہنا تھا کہ کانگریس کی داخلی چپقلش سے اروناچل پردیش میں آئینی بحران پیدا ہوا تھا، ’’ہم پارٹی کی باہر سے حمایت کر رہے ہیں اور عدالت کے فیصلے کو بی جے پی کے لیے دھچکا قرار دینا درست نہیں ہے۔‘‘
بہرحال بدھ کا دن بی جے پی کے لیے اس لحاظ سے کافی بُرا ثابت ہوا کہ پارٹی کے قومی صدر امت شاہ آج ہی کانگریس سے آزاد شمال مشرق کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک بڑی مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔
بی جے پی کے بعض لیڈروں کا خیال ہے کہ اتر اکھنڈ اور اروناچل پردیش کے معاملے سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور اگر آسام اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا سہرا قومی صدر امت شاہ کو دیا جا رہا ہے تو بدنامی کی ذمہ داری بھی انہیں ہی لینی چاہیے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بی جے پی کی بلاشبہ سبکی ہوئی ہے اور اس کا حوصلہ وقتی طورپر پست ہوا ہے لیکن وہ شمال مشرقی ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنے کی اپنی کوشش ترک نہیں کرے گی کیوں کہ یہ پارٹی اور مرکز میں اس کی حکومت کے لیے اسٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہم ہے۔
ماضی میں نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی کے نام سے معروف اس علاقے کو ہی اب اروناچل پردیش کہا جاتا ہے۔ چین بھی اس علاقہ پر اپنا دعوی کرتا ہے۔ سن 1962 کی بھارت چین جنگ بھی اسی علاقے میں لڑی گئی تھی۔