افغان صوبے کُنڑ کے نائب گورنر پشاور سے اغواء
29 اکتوبر 2017ایک سینیئر پولیس اہلکار محمد سجاد خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ محمد نبی احمدی جمعہ کے روز پاکستان کے شمالی مغربی شہر پشاور آئے تھے۔ وہ طبی معائنے کے لیے پاکستان آئے تھے۔ اس اہلکار کے مطابق، ’’وہ پشاور کے علاقے دبگاری میں تھے جب مسلح افراد زبردستی انہیں ایک گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔‘‘
پشاور میں قائم افغان قونصلیٹ کے ایک اہلکار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس خبر کی تصدیق کی۔ ابھی تک کسی گروپ کی طرف سے کُنڑ کے نائب گورنر محمد نبی احمد کو اغواء کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔
اس واقعے سے ایک برس قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مارکیٹ سے افغان صوبہ ہرات کے ایک سابق گورنر کو اغواء کر لیا گیا تھا۔ تاہم ان کی رہائی دو ہفتے بعد خیبر پختونخوا کے شہر مردان سے دو ہفتے بعد عمل میں آئی تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ان دنوں تناؤ کا شکار ہیں۔ کابل اور اسلام آباد ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسے شدت پسند گروپوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے جو سرحد پار جا کر کارروائیاں کرتے ہیں۔
افغانستان کی سرحد کے قریب واقع پاکستانی شہر پشاور ایک عرصے سے دونوں ممالک کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا گڑھ رہا ہے۔ اسمگلرز بھی اس شہر کو ٹرانسپورٹ کے ایک بڑے مرکز کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔
یہ شہر دہشت گردی سے بھی شدید متاثر رہا ہے اور یہاں پاکستان میں ہونے والے کئی خونریز ترین دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں۔ انہی میں 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا دہشت گردانہ حملہ بھی شامل ہیں جس کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت اسکول کے طلبہ کی تھی۔
رواں ماہ کے آغاز میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ایک کنیڈین، امریکی خاندان کے پانچ ارکان کو قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے آزاد کرایا تھا۔ ان افراد کو 2012ء میں عسکریت پسندوں نے افغانستان سے اغواء کیا تھا۔