Bundestag verlängert Mandat
26 جنوری 2012افغانستان ميں ٹاسک فورس سے متعلق جرمنی کی پارٹی ايس پی ڈی کے ترجمان يوہانس فلوگ نے کہا کہ جرمنی سن 2013، 2014ء تک اپنے لڑاکا دستوں کو افغانستان سے واپس بلا لينا چاہتا ہے۔ ليکن ان کے خيال ميں افغانستان ميں جرمن فوج زيادہ لمبے عرصے تک رہے گی۔ اس کا انحصار افغانستان ميں سلامتی کی صورتحال پر ہو گا۔
افغانستان سے جرمن افواج کے انخلا کے ليے واضح ترجيحات ہيں، جن کی بنياد سن 2014 تک فوجی دستے واپس بلا لينے کے عالمی برادری کے منصوبے پر رکھی گئی ہے۔ جرمن فوج بقيہ مدت کے دوران افغان سکيورٹی فورسز کی تربيت کے کام پر پوری توجہ دے گی اور انہيں طالبان کی نقل و حرکت کی صلاحيت کو کم از کم حد تک گھٹانے ميں مدد دے گی۔
نيٹو اتحاد مجموعی طور پر تين لاکھ 50 ہزار افغان فوج اور پوليس کو تربيت دينا چاہتا ہے۔ اس سلسلے ميں کس قدر زيادہ مسائل پيش آ سکتے ہيں، اس کا اندازہ 20 جنوری ہی کو ايک افغان فوجی کے ہاتھوں چار فرانسيسی فوجيوں کی ہلاکت سے لگايا جا سکتا ہے۔
امريکی اخبار نيو يارک ٹائمز کی ايک رپورٹ کے مطابق صرف مئی سن 2007 اور مئی سن 2011 کے دوران بين الاقوامی حفاظتی فوج کے 58 فوجی افغان سکيورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
ليکن افغان نيشنل آرمی کے قيام کے علاوہ معاملہ فوج کی تنخواہوں کا بھی ہے۔ صرف پچھلے سال ہی مغربی ممالک نے افغانستان کو فوجيوں کی تربيت کے ليے آٹھ ارب يورو فراہم کيے۔ سن 2014 کے بعد بھی ان اخراجات کا اندازہ سالانہ چھ ارب يورو لگایا جاتا ہے۔ اگر امريکہ اور دوسرے امداد دينے والے ممالک نے پروگرام کے مطابق رقوم ميں کمی کر دی تو ايک لاکھ سے زائد فوجی بے روزگار ہو جائيں گے۔ فلوگ نے کہا: ’’اس کے ليے زيادہ قوت تخيل کی ضرورت نہيں کہ اگر يہ مخالفين سے جا ملے تو کيا حالات ہوں گے۔‘‘
جرمن امدادی تنظيم ’وَيلٹ ہُنگر ہِلفے کے ٹيمو کرسٹيانس کے خيال ميں بين الاقوامی افواج کا انخلا افغان معيشت کے ليے ايک دھچکہ ہو گا۔ اس کے علاوہ مختلف تنازعات کی شدت ميں بھی اضافہ ہو گا۔
افغانستان ميں جرمن فوجی کارروائی اب اپنے گيارہويں سال ميں داخل ہو رہی ہے۔ اب کوئی بھی يہ نہيں سمجھتا کہ اس تنازعے کا ايک فوجی حل ممکن ہے۔ امريکہ کی طرح جرمنی ميں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات سے بہت زيادہ اميديں وابستہ کی جا رہی ہيں۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں طالبان کا رابطہ دفتر کھولنے کی کوششوں ميں جرمنی کے خصوصی نمائندے ميشاعیل اشٹائنر نے اہم کردار ادا کيا ہے۔ قطر يہ دفتر کھولنے کے ذريعے طالبان اور مغرب کے درميان مکالمت میں ايک قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
ليکن افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان کی اہميت کہيں زيادہ ہے۔ فلوگ نے کہا: ’’پاکستان کے بغير کچھ بھی نہيں کيا جا سکتا۔‘‘ فلوگ کو اميد ہے کہ دسمبر ميں بون ميں ہونے والی افغانستان کانفرنس ميں بہت تعميری کردار ادا کرنے والا چين اپنے اتحادی پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔ پاکستان نے اپنی ايک سرحدی چوکی پر امريکی فضائی حملے ميں 24 پاکستانی فوجيوں کی ہلاکت کے بعد بون کانفرنس ميں شرکت نہيں کی تھی۔
طالبان سے مذاکرات بہت دشوار ہيں ليکن ٹيمو کرسٹيانس نے کہا کہ موجودہ افغان حکمران بھی بہت سی آزاديوں اور انسانی حقوق کو کچل رہے ہيں۔ ايک اور سوال يہ ہے کہ مذاکرات ميں طالبان کے قائد ملا عمر کی نمائندگی کون کرے گا۔ ممکن ہے کہ يہ طالبان کے ايلچی طيب آغا ہوں، جن کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ جرمن خفیہ ادارے بی اين ڈی نے ان سے روابط پيدا کرائے ہيں۔ پرانے افغان جنگی رہنما گلبدين حکمت یار کی مذاکرات ميں شرکت بھی متنازعہ ہے، جن کے اسلام پسند گروپ حزب اسلامی کو شديد جنگی جرائم کا مرتکب قرار ديا جاتا ہے۔
رپورٹ: دانيئل شيشکےوِٹس / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک