افغانستان میں شہری ہلاکتوں کی تعداد نئی ریکارڈ حد تک زیادہ
17 جولائی 2017افغان دارالحکومت کابل سے پیر سترہ جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ہندو کش کی اس ریاست میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن UNAMA کی طرف سے بتایا گیا کہ اس سال یکم جنوری سے لے کر 30 جون تک اس ملک میں جو کل 1,662 عام شہری مارے گئے، ان میں سے 20 فیصد صرف ریاستی دارالحکومت کابل میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے اس امدادی مشن کی طرف سے افغان خانہ جنگی کے دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد کا 2009ء سے اب تک باقاعدہ ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ اس ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق عشروں سے خانہ جنگی اور بدامنی کے شکار اس ملک میں صرف گزشتہ ششماہی کے دوران جتنے بھی عام شہری مارے گئے، ان کی بہت بڑی اکثریت کی موت کی وجہ حکومت مخالف عسکری قوتیں اور شدت پسند تنظیمیں بنیں۔
امريکا و پاکستان کے باہمی تعلقات، اونٹ اب کس کروٹ بيٹھے گا؟
افغانستان ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب مشترکه آپریشن پر راضی
پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے میں قیام امن ممکن نہیں، مک کین
رپورٹ کے مطابق ان شہری ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ افغان طالبان اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں اور خود کش حملہ آوروں کی طرف سے کی جانے والی خونریز کارروائیاں تھیں۔
یو این اے ایم اے کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ہندوکش کی اس ریاست میں شہری ہلاکتوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا اور کابل حکومت کی مخالف قوتوں کی طرف سے یہ حملے بہت ہی منظم اور مربوط انداز میں کیے گئے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس سال جنوری سے جون تک افغانستان میں جتنے بھی عام شہری مختلف حملوں میں مارے گئے، ان کی مجموعی تعداد گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کے دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ رہی۔
افغانستان میں اب کیا ہوگا؟ یورپ امریکی جواب کے انتظار میں
افغانستان ميں اضافی نيٹو فوجی تعينات کيے جائيں گے، اسٹولٹن برگ
پاکستان اور افغانستان باہمی تعلقات بہتر بنائیں، چینی وزیر خارجہ
ان 1,662 شہری ہلاکتوں میں سے جس ایک حملے میں سب سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوئے، وہ مئی کے مہینے میں کابل میں ایک ٹرک کی مدد سے کیا جانے والا وہ بہت بڑا بم دھماکا تھا، جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک اور سینکروں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق کابل میں یہ بم حملہ 2001ء سے لے کر اب تک افغانستان میں کہیں بھی کیا جانے والا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا، جس میں مارے جانے والے ڈیڑھ سو سے زائد افراد میں سے کم از کم 92 عام شہری تھے۔
ان شہری ہلاکتوں پر عالمی ادارے کی طرف سے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب تادامیچی یاماموتو نے کہا کہ افغانستان کے مسلح تنازعے میں انسانی جانوں کی صورت میں چکائی جانے والی یہ قیمت ابھی تک ’بہت ہی زیادہ‘ ہے۔
تادامیچی یاماموتو نے افغانستان میں دیرپا قیام امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’یہ قابل مذمت اور اندھا دھند خونریز حملے اور بم دھماکے فوری طور پر بند ہونا چاہییں۔‘‘