افغانستان میں قیام امن، پاکستانی وزیراعظم کا دورہ قطر
5 فروری 2012پاکستانی وزرات خارجہ نے تو فی الحال اس دورے کی تفصیلات نہیں بتائی مگر ایک سینیئر عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس دورے میں مرکزی حیثیت افغانستان میں قیام امن اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کو حاصل رہے گی۔ اس عہدیدار کے مطابق یہ دورہ اگلے ہفتے شیڈیول کیا گیا ہے۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے وقت افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی، تاہم سن 2001ء میں امریکی حملے کے بعد طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے قطر میں ایک سیاسی دفتر کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ امریکہ کی جانب سے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ اس دفتر کے قیام پر افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ کرزئی کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام گروپوں سے مذاکرات پر اتفاق ہے تاہم اس دفتر کے قیام کے حوالے سے افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ لیکن کرزئی نے بعد میں اس دفتر کے قیام پر اپنی رضامندی کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ اس تناظر میں گزشتہ ماہ افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب مارک گراسمین نے کابل کا دورہ بھی کیا تھا۔
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں ایک عرصے سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔ افغان حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان طالبان عسکریت پسندوں کی معاونت کرتا ہے جبکہ پاکستان ایسے الزام کو بے بنیاد قرار دیتا آیا ہے۔ بدھ کے روز پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی ایک مرتبہ پھر ایسے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا کہ جب نیٹو کی ایک لیک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے طالبان عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں تاکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں طالبان دوبارہ غلبہ حاصل کر لیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: عابد حسین