ایرانی ارب پتی ملزم کے لیے کرپشن کیس میں سزائے موت کی توثیق
3 دسمبر 2016دبئی سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی سپریم کورٹ نے زنجانی کے لیے ایک ذیلی عدالت کا سزائے موت کا حکم برقرار تو رکھا ہے لیکن انہیں سنائی گئی اس سزا کے ناقدین کا کہنا ہے کہ زنجانی کو سزائے موت دینے سے ان تمام اعلیٰ ایرانی حکام کی شناخت ہمیشہ کے لیے چھپا دی جائے گی، جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران میں اپنے اختیارات کا مجرمانہ استعمال کرتے ہوئے اس بزنس مین کی کرپشن میں اس کی مدد کی تھی۔
خود بابک زنجانی کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کے دور میں اربوں ڈالر کے تیل کی فروخت کے معاہدوں کا اہتمام کیا تھا اور اس عمل میں کئی ایسی کاروباری کمپنیوں کا وہ نیٹ ورک استعمال کیا گیا تھا، جو ملائیشیا اور ترکی سے لے کر متحدہ عرب امارات تک پھیلا ہوا تھا۔
زنجانی کو سزائے موت کا حکم اس سال مارچ میں سنایا گیا تھا اور ایرانی دفتر استغاثہ کا الزام ہے کہ ابھی تک اس کے ذمے کم از کم بھی 2.7 ارب ڈالر سے زائد کی وہ رقوم باقی ہیں، جو اسے تہران میں ملکی وزارت تیل کے لیے ایرانی حکومت کو ادا کرنا ہیں۔
ارب پتی بزنس مین بابک زنجابی کو سنائی گئی سزائے موت کے شدید ناقدین میں موجودہ ملکی صدر حسن روحانی بھی شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ زنجانی کو موت کی سزا دینے سے ان تمام سرکاری اہلکاروں کی شناخت کا افشاء اور ان سے سرکاری رقوم کی وصولی ناممکن ہو جائیں گے، جنہوں نے بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زنجانی کے ساتھ مل کر ایرانی تیل بیرونی منڈیوں میں فروخت کیا تھا۔
بابک زنجانی نے ایک مرتبہ ایک ایرانی جریدے کو بتایا تھا کہ وہ قریب 10 ارب ڈالر کا مالک ہے اور تقریباﹰ اتنی ہی مالیت کے قرضے اس کے ذمے واجب الادا بھی ہیں۔
ایرانی عدلیہ کی نیوز ویب سائٹ ’میزان‘ نے عدلیہ کے نائب سربراہ غلام رضا انصاری کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتہ تین دسمبر کو بتایا کہ ملکی سپریم کورٹ نے بابک زنجانی کو سنائی گئی سزائے موت برقرار رکھی ہے جب کہ اسی مقدمے میں دو دیگر شریک ملزمان کو سنائی گئی موت کی سزائیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
زنجانی کو دسمبر 2013ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے وقت ایرانی عدلیہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا، ’’زنجانی نے چند اداروں سے رقوم لیں۔ ان کے بعد اسے تیل اور دیگر مصنوعات مہیا کی گئیں۔ اس دوران ملزم زنجانی نے ایرانی ریاست کو وہ فنڈز واپس نہیں کیے، جو اسے عرصہ پہلے واپس کر دینا چاہیے تھے۔‘‘