بھارت: بیگ پر 'فلسطین' لکھنے سے اتنا ہنگامہ کیوں برپا ہے؟
17 دسمبر 2024کانگریس پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا گاندھی واڈرا فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پیر کے روز اپنے بیگ پر جلی حروف میں لفظ "فلسطین" لکھا کر ایوان پہنچیں، جس پر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے سخت تنقید کی اور پھر ایک ہنگامہ شروع ہو گیا۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی ابھی حال ہی میں ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے پہلی بار ایوان پہنچی ہیں اور سرمائی اجلاس میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی غزہ جنگ کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کرتی رہی ہیں۔
ایوان میں انہوں نے اپنے ہاتھ میں جو بیگ اٹھا رکھا تھا، اس پر لفظ "فلسطین" اور فلسطینی علامات بھی بنی ہوتی تھیں، جس میں تربوز بھی شامل تھا، جو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
’پریانکا سیاست کے آغاز میں ہی متاثر کر گئیں‘
پاکستان کے سابق وزیر نے پرینکا کے بارے میں کیا کہا؟
واضح رہے کہ ان کے اس بیگ کے اقدام سے دو روز قبل ہی نئی دہلی میں فلسطینی سفارتخانے کے ناظم الامور عابد عبد الراجز نے پرینکا گاندھی سے ملاقات کی تھی۔
تاہم اسی دوران پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیر چودہری فواد حسین نے پرینکا گاندھی کی اس اقدام کی تعریف کر دی جس کے بعد ان پر مزید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر چوہدری فواد حسین نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا، "جواہر لعل نہرو جیسے عظیم آزادی پسند مجاہد کی نواسی پست قد والوں کے درمیان قد آور ہو کر کھڑی تھی۔"
بھارتی مصنفہ نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکی ایوارڈ ٹھکرا دیا
اپنی پوسٹ میں، فواد حسین نے "ایسی ہمت" کا مظاہرہ نہ کرنے پر پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے لکھا، "ہم جواہر لعل نہرو جیسے عظیم مجاہد آزادی کی پوتی سے اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ آج تک کسی پاکستانی ممبر پارلیمنٹ نے ایسی جرات کا مظاہرہ تک نہیں کیا۔ شکریہ۔"
بی جے پی کی پرینکا پر شدید تنقید
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے پرینکا گاندھی کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے اس اقدام پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وہ گھریلو مسائل پر غیر ملکی خدشات کو ترجیح دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
بھارتی پارلیمان میں 'جئے فلسطین' کے نعرے پر تنازع
مودی حکومت میں ایک سینیئر وزیر انوراگ ٹھاکر نے کہا، "کیا یہ بیگ ایک بیان تھا؟ تو یہ بنگلہ دیشی ہندوؤں کے مسائل پر خاموش کیوں رہا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟"
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھارتی پارلیمنٹ ہے، جہاں ملکی عوام کے خدشات کو اجاگر کرنے رکن منتخب کیے جاتے ہیں۔ "پہلے اسد الدین اویسی نے 'جئے فلسطین' کا نعرہ لگایا تھا اور اب یہ پرینکا گاندھی ہیں جنہوں نے 'جئے فلسطین' کا نعرہ لگایا ہے۔"
بھارت میں فلسطین نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیاں
اس کے علاوہ بھی بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے پرینکا گاندھی پر نکتہ چینی کی اور بعض نے تو یہاں تک کہا کہ پرینکا گاندھی، "بھارت میں مسلم لیگ کی نمائندگی" کر رہی ہیں۔ سوشل میڈيا پر ان کے خلاف نکتہ چینی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اسرائیل ایک لاکھ بھارتی ورکرز کی خدمات کے حصول کا خواہاں
پرینکا گاندھی کا جواب
منگل کے روز پرینکا گاندھی جب ایوان پہنچیں تو ان کے ہاتھ میں ایک اور بیگ تھا، جس پر بنگلہ دیش میں اقلیتی برادری کے ساتھ ہونے والی مبینہ "زیادتیوں" کے ساتھ اظہار ہمدردی کے حق میں نعرے درج تھے۔
بیگ پر لکھا تھا، "بنگلہ دیشی ہندوؤں اور مسیحیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔" واضح رہے کہ بھارت شیخ حسینہ کی حکومت کی معزولی کے بعد سے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مبینہ زیادتیوں کے الزام عائد کرتا رہا ہے اور اسی حوالے سے وہ منگل کے روز دوسرے بیگ کے ساتھ پارلیمان پہنچی تھیں۔
بھارت: کرکٹ ورلڈکپ میچ کے دوران فلسطینی پرچم لہرانے پر گرفتاریاں
پرینکا گاندھی کے اس "بیگ اقدام" کے سبب اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی منگل کے روز اسی طرح کے بیگ اٹھا کر ایوان پہنچے اور احتجاج کیا۔
پرینکا گاندھی سے جب ان کے ’فلسطین‘ بیگ پر تنازعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بی جے پی کی تنقید کو یکسر مسترد کیا۔
بھارتی کمپنی کا اسرائیلی پولیس کےلیے یونیفارم بنانے سے انکار
انہوں نے کہا، "اب یہ کون فیصلہ کرے گا کہ میں کون سے کپڑے پہنوں؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ عام پدرانہ نظام ہے کہ مرد فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کیا پہنیں۔ میں تو اس کی تائید نہیں کرتی۔ میں وہی پہنوں گی جو میں چاہوں گی۔"