241011 Deutschland Migration
29 اکتوبر 2011آج سے پچاس سال قبل جب ترکی سے مہمان کارکن جرمنی آئے تھےتوان میں سے زیادہ تر اس ملک میں مستقل سکونت اختیار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اُس وقت کی جرمن حکومت نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ یہ کارکن تو عارضی طور پر یہاں قیام کریں گے سیاسی سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ آج جرمنی میں تقریباً ڈھائی ملین ترک نژاد باشندے آباد ہیں۔ اب جرمن سیاست میں مہاجرت اور سماجی انضمام کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ستر کی دہائی میں کیے جانے والے ایک فیصلے کا اثر مہمان کارکنوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ ہوا۔ اس دورکے جرمن چانسلر ولی برانٹ صنعتی شعبے کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے شدید پریشان تھے۔ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے ایک سرکاری وضاحتی بیان میں کیا تھا۔ ان کے بقول یہ امر بہت اہمیت اختیار کر گیا ہےکہ سنجیدگی سے معاشرے اور صنعتی شعبے کی کمزوریوں پر غور کیا جائے۔
1973ء میں مہمان کارکنوں کی بھرتی کا یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد جرمنی آنے والے ترک باشندوں کی ایک بڑی تعداد واپس چلی گئی۔ بقیہ افراد اپنے اہل خانہ کو جرمنی لے آئے۔
جرمنی میں مہاجرت اور سماجی انضمام کے محکمے سے منسلک صفدرچنار کے خیال میں اس وقت کی جرمن حکومت مہاجرین کے اس سیلاب کے حوالے سے تیار نہیں تھی۔ ’’طویل مدت کے لیے پورے خاندان کے ساتھ ہجرت کا مطلب کنڈر گارٹنز اور اسکولوں میں دوسری زبان بولنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ ان بچوں کا تعلق کسی اور مذہب سے ہو گا اور ان کی ثقافت بھی جدا ہو گی۔ اُس وقت ان سب پہلوؤں پر غور نہیں کیا گیا تھا‘‘۔
70ء کی دہائی میں ترک باشندوں کو ویزے میں توسیع کے سلسلے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح ترک مہمان کارکنوں کے جرمنی میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے سلسلے کی ابتداء ہوئی۔جرمنی میں غیر ملکیوں کے انضمام کے حوالے سے 1979ء میں پہلی مرتبہ تارکین وطن کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی گئی۔
اسی طرح 1982ء میں اس وقت کے جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے ملک میں غیر ملکیوں کی تعداد محدود کرنے کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسے غیر ملکی، جو واپس جاناچاہتے ہوں، ان کے لیے واپسی کو آسان بنایا جائے گا۔ لیکن انہیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ واپس جانا چاہتے بھی ہیں یا پھر یہیں قیام کرتے ہوئے جرمن معاشرے میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔
ترک باشندوں کا بطور مہمان کارکن جرمنی آنا ایک ایسا فیصلہ تھا، جس نے ان کی زندگیوں کو تبدیل کر ڈالا۔ اس سے نہ صرف یہ دونوں ملک قریب آئے بلکہ جرمنی میں ہونے والی صنعتی ترقی میں ان ’عارضی مہمان کارکنوں‘ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
رپورٹ: یولِیڈے ڈانِسمن
ترجمہ: عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک