1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی سے وطن لوٹنے والے شامی پناہ گزینوں کی نئی جدوجہد

29 دسمبر 2024

شام میں بعد از انقلاب ترکی سے اپنے وطن واپس لوٹنے والے شامی باشندوں کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جب یہ لوگ اپنی زندگی کا نیا آغاز کرنے کے لیے وطن واپس پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4oPy2
احمد القاسم
القاسم اور ان کا خاندان ان 7600 سے زائد شامی پناہ گزینوں میں شامل ہیں جنہوں نے ترکی سے شام واپس آنے کا فیصلہ کیاتصویر: Khalil Hamra/AP Photo/picture alliance

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، احمد القاسم ترکی سے اپنے خاندان کے ہمراہ وطن واپس لوٹے ہیں۔ حلب شہر میں واقع ان کا پرانا گھر تباہ ہو چکا ہے جہاں رہنا ممکن نہیں ہے۔ جس گھر میں وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ منتقل ہوئے ہیں، وہاں نہ بجلی ہے اور نہ پانی۔

خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے 38 سالہ احمد القاسم کا کہنا تھا کہ، ’’اگر مجھے پہلے اس صورتحال کا علم ہوتا تو میں نہیں جانتا کہ میں یہاں آتا یا نہیں۔ اگرچہ ترکی میں ہماری زندگی بہت بہترین نہیں تھی لیکن ہم یہاں جو دیکھ رہے ہیں وہ تو تباہی ہے۔‘‘

القاسم اور ان کا خاندان ان 7600 سے زائد شامی پناہ گزینوں میں شامل ہیں جنہوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ترکی سے شام واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

القاسم اور ان کے خاندان نے ترکی میں گیارہ سال گزارے، جہاں ان کے پانچ بچوں میں سے چار کی پیدائش ہوئی۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن کی عمریں سات سے 14 سال کے درمیان ہیں۔ اب القاسم اور ان کی بیوی کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نیا آغاز کریں، اپنے خاندان سے ملیں، اور اپنے بچوں کو اپنے ثقافتی ورثے سے متعارف کرائیں۔

شام اور ترکی کے درمیان سرحدی گزرگاہ پر شامی باشندے قطار میں کھڑے ہیں
شام اور ترکی کے درمیان سرحدی گزرگاہ پر شامی باشندے قطار میں کھڑے ہیںتصویر: Khalil Hamra/AP Photo/picture alliance

تاہم القاسم اب سوچ رہے ہیں کہ آیا اپنے خاندان کو اتنی جلدی شام واپس لانے کا فیصلہ درست تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب میں نے اپنے ملک کو آزاد دیکھا، تو میں نے فوری اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آنے کا فیصلہ کیا تاکہ انہیں اپنا وطن دکھا سکوں۔ لیکن جب میرے بچوں نے یہ حالات دیکھے تو وہ حیران ہو گئے۔ انہیں یہ توقع نہیں تھی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ترکی میں ہمیں زندگی کی تمام ضروریات میسر تھیں، لیکن یہاں، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ہم کئی دنوں سے پانی کے بغیر گزارا کر رہے ہیں۔ مجھے یہ نہیں پتا کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ اب کہاں جاؤں گا۔‘‘

االقاسم کی بیٹی راویہ جب شام سے ترکی روانہ ہوئی تھیں، تو وہ صرف چار سال کی تھیں۔ راویہ، جو اب 14 سال کی ہیں، اپنے رشتہ داروں سے مل کر خوش ہیں، لیکن حلب میں اسکول شروع کرنے کے حوالے سے فکر مند بھی ہیں کیونکہ وہ عربی بول تو سکتی ہیں، مگر نہ پڑھ سکتی ہیں اور نہ ہی لکھ سکتی ہیں۔

شامی انقلابی پرچم کو اب قلعہ حلب پر لہرا دیا گیا ہے جہاں اس وقت لوگ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کا جشن منارہے ہیں۔ سڑکوں پر بھی مقامی باشندوں اور زائرین کا ہجوم ہے۔

شامی پناہ گزین احمد القاسم حلب واپسی پر اپنی بھانجی کو گلے لگا رہے ہیں
القاسم جب اپنے پرانے گھر گئے تو وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ گھر کی کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں اور گھر کا سارا سامان غائب تھاتصویر: Khalil Hamra/AP Photo/picture alliance

اس جشن میں اپنے خاندان کے ہمراہ شریک ایک خاتون کا کہنا ہے کہ، ’’ہم اس اہم موقع پر اپنی خوشی کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے آئیں ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک ظالم حکمران سے نجات ملنے پر بہت خوش ہیں جس نے اپنے عوام پر ظلم ڈھایا، لوگوں کو قتل کیا اور جیلوں میں قید کیا۔

تاہم دوسری جانب حلب کی کوستاکی حمصی اسٹریٹ پر بیکریوں کے باہر روٹی کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں ملکی معیشت کی ایک متضاد تصویر پیش کرتی ہیں۔

القاسم جب حلب واپس پہنچے، تو انہوں نے فوراً اپنے پرانے گھر کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ گھر کی کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں اور گھر کا سارا سامان غائب تھا۔

القاسم نے ترکی میں اپنے گزرے دنوں کو یاد کیا۔ جہاں انہیں کووڈ وبا اور 2023 کے تباہ کن زلزلے کے بعد کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب انہیں اپنے وطن واپس آ کر بھی نئی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔

وہ کہتے ہیں، ’’لیکن مجھے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ اب بھی میرا وطن ہے، میرا گھر ہے، اور ہمارے لوگ یہاں ہیں۔‘‘

ح ف / ص ز  (اے پی)

شامی پناہ گزینوں کے لیے ترک ہلالِ احمر کی امدادی سرگرمیاں