جرمن باشندے کس طرح سردی کا مقابلہ کرتے ہیں
جرمنی کا نظام صحت بہت سے ممالک سے بہت بہتر اور معیاری ہے اس لیے جرمن باشندوں کو خود اپنا علاج کرنے کی ضرورت نہیں۔
پنڈلی کے گرد بندھی پٹی
اگر آپ بستر پر پڑے کسی جرمن کو دیکھیں جس کی پنڈلوں پر گیلی پٹی بندھی ہو تو سمجھ جائیں کہ وہ بُخار میں مبتلا ہے۔ یہ بخار کے خلاف ایک تیر با ہدف علاج ثابت ہوتا ہے۔ پیروں پر ماتھے کی نسبت ٹھنڈی اورنم پٹی رکھنے کی زیادہ جگہ ہوتی ہے اس لیے بخار کم کرنے کا یہ طریقہ بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ جرمن ڈاکٹروں کی دو تاکید عام ہے۔ پٹی کے لیے برف کی بجائے نیم گرم پانی استعمال کریں اور پٹی کو 30 منٹ بعد ہٹا دیں۔
اسکارف سگنل
گلے کے گرد ڈھیلا ڈھالا سا بندھا ہوا اسکارف عموماً فیشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن جب گلے کے گرد اسکارف کو تنگ کر کے باندھ لیا جائے تو یہ بیماری کی علامت بن جاتا ہے۔ جرمن باشندے اسکارف کا استعمال گلے کی سوزش کو دور کرنے اور اسے ٹونسیلائیٹس یا ورم لوزہ سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ اسکارف کا استعمال جرمن باشندے اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان کی گردن کی جلد جسم کی حساس ترین جلد میں شمار ہوتی۔
ہوا کا لگنا
عام طور سے جرمن باشندے یہ کہتے ہیں کہ کراس وینٹیلیشن یا مخالف سمتوں سے چلنے والی ہوا لگنے کے سبب گردن، سر اور شانوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ جرمن ماہر سمیات اورٹون ایڈمس اس خیال کو لغو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول نا تو اس بات کا کوئی ثبوت پایا جاتا ہے کہ پشت گردن پر ہوا لگنے سے جسم کے درجہ حرارت میں تبدیلی آتی ہے نا ہی سرد ہوا لگنے سے نزلہ زکام جنم لینے کا کوئی تعلق بنتا ہے۔
پریٹسل، رسک اور کولا
رس اور پریٹسل اسٹکس ممکنہ بیماریوں سے بچاؤ کا موثر ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ جرمن انہیں اسحال اور متلی یا قے کے بعد کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ اسنیکس کولا کلاسک کے ساتھ سب سے بہتر طور پر گلے سے نیچے اترتی ہیں۔ پریٹسلز پر لگا نمک خاص طور سے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اس لیے کوکا کولا سے پرہیز کرتے ہوئے کھانے کی مذکورہ اشیا پر توجہ دینی چاہیے۔ کیفین ویسے بھی پیشاب آور ہوتی ہے۔
کامیلا کا پودا
سردی، نزلہ زکام اور سر درد اور دیگر تکالیف کا موثر علاج جرمن باشندے زیادہ تر کامیلا نمک اور گرم پانی سے غسل سے کرتے ہیں تاہم ہر کوئی اِس نادر پودے یعنی کامیلا سےاستفادہ کر سکتا ہے۔ اس کے پھول سے ایک خاص قسم کا کیمیائی مادا خارج ہوتا ہے جو نظام تنفس کی سوزش، گلے اور پھیپھڑوں کی سوزش اور کھانسی وغیرہ میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
مصنوعی بخار
کسی وائرس کو کس طرح مستقل طور پر مارا جا سکتا ہے؟ بہت ہی گرم ساؤنا یا حمام بناوٹی بخار کی کیفیت پیدا کر کے نزلے زکام کے وائرس کا قتل کر سکتا ہے؟ ماہر سمیات یا وائرولوجسٹ ایڈمس کا جواب نفی میں ہے۔ بخار یا جسم کے بہت بڑھے ہوئے درجہ حرارت سے وائرس کو نہیں مارا جا سکتا۔ اسی طرح ساؤنا یا گرم حمام جسم کے درجہ حرارت کو اُس حد نہیں بڑھا سکتا جس سے زکام کا سبب بننے والے وائرس مر سکیں۔
دودھ اور شہد
خُشک کھانسی کا موثرعلاج گرم دودھ اور شہد ہے۔ جرمنی میں اسے گھریلو خواتین کا قدیم نسخہ کہا جاتا ہے، جس سے جدید سائنس بھی اتفاق کرتی ہے۔ امریکا میں 2007 ء اور 2012 ء میں ہونے والے مطالعاتی جائزے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ گرم دودھ میں شہد ڈال کر بچوں کو پلانے سے راتوں رات اُن کی کھانسی ، سینےمیں بلغم میں واضح کمی آتی ہے۔ متوازن مقدار میں سادہ شہد کا استعمال مصنوعی ذائقہ دار شہد سے کہیں زیادہ موثرہوتا ہے۔
پیاز کا استعمال
جرمنی میں پیاز اور لہسن کی بوُ کو بُرا سمجھا جاتا ہے تاہم پیاز کا استعمال ہر گھر میں ہونے لگا ہے کیونکہ پیاز کا عرق ہوا کے ذریعے پھیلنے والے متعدد وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوا ہے۔
جنس اور درد
تمام جرمن خواتین کا کہنا ہے کہ جب ایک مرد بیمار پڑ جائے تو وہ ایک بلبلاتے بچے سے کم نہیں ہوتا۔ کیا یہ مفروضہ صحیح ہے؟ امریکا کی اسٹینفورڈ پونیورسٹی کے ایک مطالعاتی جائزے کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ خواتین درد کی شدت زیادہ محسوس کرتی ہیں یا کم از کم اس امر کا اقرار کرتی ہیں کہ انہیں درد ہو رہا ہے۔ تاہم کون سی جنس درد زیادہ شدت سے محسوس کرتی ہے، اس بارے میں سائنس خاموش ہے۔