جرمن علاقہ Ruhr، یورپی ثقافتی دارالخلافہ 2010ء
4 جنوری 2010یہ سن 1985ء کی بات ہے۔ یونان کی خاتون وزیر ثقافت میلینا مَیرکُوری اور اُن کے فرانسیسی ہم منصب ژاک لانگ یورپ کے کسی ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ کے لئے رُکے ۔ وہ اگلی فلائٹ کے انتظار میں بور ہو رہے تھے کہ اپنے ساتھی وزیر کے ساتھ گرما گرم بات چیت کے دوران میلینا میرکوری کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہر سال کسی نہ کسی یورپی شہر کو سال بھر کے لئے ثقافتی دارالخلافہ بنایا جائے۔ تب تک یورپی یونین زیادہ تر زرعی شعبے کے لئے سرکاری اعانتوں جیسے مسائل میں اُلجھی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے سوچا کہ اِسے ایک ثقافتی برادری میں بدلا جائے۔
اُسی سال ڈوئچے ویلے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے میلینا میرکوری نے کہا تھا:’’مَیں ثقافتی تبادلے پر یقین رکھتی ہوں۔ میرے خیال میں تبادلہ صرف آلوؤں اور ٹماٹروں کا ہی نہیں بلکہ فنکاروں کا بھی ہونا چاہیے۔‘‘
چنانچہ میلینا میرکوری نے، جو اِس سے پہلے ایک مقبول گلوکارہ بھی رہ چکی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے یونانی دارالحکومت ایتھنز کو پہلے یورپی دارالخلافے کا درجہ دے دیا۔ اِس کے بعد یہ اعزاز فلورینس، ایمسٹرڈیم، برلن اور پیرس کے حصے میں آیا۔ 1990ء میں گلاسگو کے لئے اِس اعزاز کا تجربہ بے حد کامیاب رہا۔
دو ہزار چار میں دَس نئے ممالک یورپی یونین کے رکن بنے اور تب یہ دیکھتے ہوئے کہ اِس اعزاز کے لئے زیادہ سے زیادہ درخواستیں آتی ہیں، یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ زیادہ شہروں کو اِس اعزاز سے نوازا جائے گا۔
اِس سال کے ثقافتی دارالخلافے کا اعزاز پانے والوں میں جرمن خطہ رُوہر بھی شامل ہے، جو دراصل تریپن شہروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اِن 53 شہروں نے، جن کی قیادت شہر اَیسن کر رہا ہے، مشترکہ طور پر یورپی ثقافتی دارالخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
خطّہ رُوہر اُنیسویں صدی سے اپنے کوئلے کی کانوں کی وجہ سے مشہور رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ عشروں سے بتدریج یہ خطہ اپنی اِس پہچان کو ترک کرتے ہوئے ایک ثقافتی مرکز کے طور پر اپنی نئی پہچان بنا رہا ہے۔
اِنہی کوششوں کا نقطہء عروج یورپی ثقافتی دارالخلافے کا یہ اعزاز ہے، جو اِس خطے کو اِس سال ملا ہے۔ دو ہزار دَس کے لئے اِس خطے میں مجموعی طور پر کوئی تین سو مختلف منصوبے بنائے گئے ہیں، جن کے تحت کوئی دو ہزار پانچ سو تقریبات اور سرگرمیاں منظم کی جائیں گی۔ ایک ترک خاندان سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون اصلی سیوندِم اِن منصوبوں کی آرٹسٹک ڈائریکٹر ہیں اور ایک انوکھے منصوبے کی تفصیلات کچھ یوں بتاتی ہیں:’’مجھے تو اٹھارہ جولائی کا بے صبری سے انتظار ہے۔ اُس روز ہم ڈُوئیزبُرگ سے ڈوٹمُنڈ جانے والی موٹر وے اے فورٹی کو ٹریفک کے لئے بند کر دیں گے اور ساٹھ کلومیٹر طویل دُنیا کی کھانے کی سب سے بڑی میز سجائیں گے۔ تب ہم رُوہر کے خطے میں بسنے والے سبھی انسانوں کو، وہ خواہ کسی بھی مذہب یا ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے ساتھ آکر کھانا کھانے کی دعوت دیں گے۔‘‘
اِس طرح کے منصوبوں کا مقصد اِس علاقے کے نام یعنی رُوہر سے چپکی اُن تمام تلخ یادوں کو مٹانا ہے، جن کا تعلق بھاری صنعت اور پسماندہ مزدور کالونیوں سے ہے۔ پانچ اعشاریہ تین ملین آبادی والا یہ خطہ چاہتا ہے کہ اِسے محض ماضی میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے اُن مزدوروں کی تصویروں سے نہ پہچانا جائے، جن کے چہروں پر کالک لگی ہوتی تھی۔ اپنے گوناگوں منصوبوں کے لئے رُوہر کایہ علاقہ ساٹھ ملین یورو خرچ کر سکے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان