حلب پر حکومتی قبضہ، بشارالاسد حکومت کے لیے بڑی کامیابی
23 دسمبر 2016یہ فوجی اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب مشرقی حلب پر قبضے کے لیے حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان جاری گھمسان کی لڑائی ختم ہو چکی ہے اور وہاں موجود باغی علاقہ چھوڑ کر نکل گئے ہیں۔
قریب ساڑھے چار سال تک اس شہر پر باغیوں کا قبضہ تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل حکومتی فورسز نے اس شہر کو باغیوں سے چھڑانے کے لیے اپنی عسکری مہم کا آغاز کیا تھا، جسے لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے جنگجوؤں کے علاوہ ایران اور روس کی مدد بھی حاصل تھی۔ اس شہر پر قبضے کی لڑائی کے دوران استعمال کی جانے والی عسکری قوت اس شہر میں پھیلی تباہی کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔
حکومت کے زیرقبضہ حلب کے مغربی حصے میں بسنے والے ہزاروں افراد نے جمعرات کے روز سڑکوں پر آکر جشن منایا اور بشارالاسد کے حق میں نعرے لگائے۔ اس موقع پر گاڑیاں ہارن بجاتی اور شہر بھر میں دوڑتی دکھائی دیں، جب کہ بچوں نے شامی قومی پرچم کے رنگوں کو اپنی گالوں پر مل رکھا تھا۔
مغربی حلب سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل عمر حالی کا کہنا ہے، ’ہماری خوشی غیرمعمولی ہے۔ آج زندگی ایک بار پھر حلب میں لوٹ آئی ہے۔‘‘
جمعرات کے روز جاری کردہ شامی فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ شہر کو ’دہشت گردوں اور دہشت گردی سے پاک کر دیا گیا ہے اور اب شہر میں امن قائم ہے۔‘‘
باغیوں سے وابستہ ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ شہر سے پسپائی بشارالاسد مخالف فورسز کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ باغی گروہ نورالدین الزنکر سے وابستہ یاسر الیوسف کے مطابق، ’’سیاسی سطح پر یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ انقلاب کے لیے یہ بڑا دھچکا اور ایک نہایت مشکل موڑ ہے۔‘‘
شامی فوج کا یہ بیان شامی سرکاری ٹی وی پر دکھائی جانے والے ان مناظر کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں باغیوں کو مشرقی حلب سے نکلتے دکھایا گیا۔
امدادی تنظیم ریڈ کراس کے مطابق انخلا کے آخری مرحلے میں مشرقی حلب میں موجود چار ہزار جنگجوؤں نے علاقہ خالی کیا۔