رشید دوستم کے جہاز کو مبینہ طور پر اترنے نہیں دیا گیا
18 جولائی 2017رشید دوستم رواں برس مئی میں علاج کی غرض سے ترکی چلے گئے تھے۔ بعض حلقوں کے مطابق وہ اپنی جماعت کے ایک رہنما کی جانب سے لگائے گئے اغوا، ٹارچر اور جنسی استحصال کے الزامات سے بچنے کے لیے فرار ہو چکے ہیں۔
ان الزامات کی چھان بین افغن صدر اشرف غنی نے ملکی اٹارنی جنرل کو تفویض کر رکھی تھی۔ چند دن قبل اس مقدمے کو سپریم کورٹ منتقل کر دیا گیا ہے۔
افغان نائب صدر رشید دوستم ملک چھوڑ کر ترکی چلے گئے
نائب افغان صدر کے خلاف تحقیقات کی جائیں، مغربی ممالک
افغان نائب صدر نے مخالف کو تشدد کے بعد اغواء کر لیا، رپورٹ
دوستم ایک طاقتور ازبک جنگی سردار تصور کیے جاتے ہیں۔ اُن پر جبری اغوا، ٹارچر اور جنسی استحصال کے الزامات احمد اشچی نے لگا رکھے ہیں۔ ان الزامات کے تناظر میں افغانستان کو امداد دینے والی غیرملکی اقوام نے بھی غنی حکومت پر شدید دباؤ ڈال رکھا ہے۔ الزامات کی چھان بین کا مطالبہ کرنے والوں میں امریکا بھی شامل ہے۔
افغان سکیورٹی اہلکاروں نے اپنے نام خفیہ رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ مزار شریف کے ہوائی اڈے پر کل پیر سترہ جولائی کی شام میں ایک پرائیویٹ ہوائی جہاز نے لینڈنگ کی اجازت طلب کی تھی لیکن ایئرپورٹ کے حکام نے ہوائی جہاز کو مزید کلیئرنس کے لیے کابل ایئر پورٹ جانے کی ہدایت کی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ رشید دوستم واپس افغانستان آنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہوائی جہاز نے کابل جانے کی بجائے اپنا رخ وسطی ایشیائی ریاست ترکمانستان کی جانب کر دیا تھا۔
دوسری جانب رشید دوستم کے ایک قریبی ساتھی نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ وہ افغانستان واپس آنے کی کوشش میں ہیں۔ اس مشیر نے یہ بھی کہا کہ بلخ صوبے کے گورنر عطا محمد نور کے ایک خاص مہمان ہوائی جہاز سے مزار شریف پہنچنے والے تھے کہ جہاز کسی ٹیکنیکل مسئلے کی وجہ سے ترکمانستان کی جانب لوٹ گیا۔ شجاع نے یہ بھی کہا کہ جس دن جنرل دوستم افغانستان لوٹنا چاہیں گے، اُس دن کوئی طاقت اُن کی واپسی کو روک نہیں سکے گی۔