سزائے موت دینے میں پاکستان بھی آگے
6 اپریل 2016انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2014 کے مقابلے میں گزشتہ برس موت کی سزاؤں پر عملدرآمد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
اس ادارے نے اس پیشرفت پر تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سزاؤں پر عملدرآمد کو روکنے میں مدد کی جا سکے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سن 1990 کے بعد پہلی مرتبہ ایک برس میں اتنے زیادہ لوگوں کی موت کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس میں دنیا بھر میں سولہ سو چونتیس افراد کی سزائے موت پر علمدرآمد کیا گیا۔ ان میں سے نوے فیصد مجرمان کا تعلق پاکستان، سعودی عرب اور ایران سے تھا۔
سن 2014 میں ایک ہزار اکسٹھ افراد کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ برس اس تعداد میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار میں چین شامل نہیں کیونکہ وہاں یہ معلومات ریاستی سطح پر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق چین کو بھی شامل کر لیا جائے تو گزشتہ برس ہلاک کیے جانے والے ایسے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو جائے گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ ماہر اولیوَر ہینڈرِچ نے ان اعدادوشمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’دستیاب معلومات کے مطابق دو ہزار چودہ کے مقابلے میں گزشتہ برس اس سزا پر عملدرآمد کے واقعات میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، جو ایک پریشان کن امر ہے۔‘‘
بدھ کے دن جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس ایران میں 977 افراد کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر مجرمان پر منیشات کی اسمگلنگ کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ایمنسٹی کے مطابق سال دو ہزار پندرہ کے دوان پاکستان میں 320 مجرمان کو پھانسی دی گئی جبکہ سعودی عرب میں 158 مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس امریکا میں اٹھائیس افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا، جو سن 1991 کے بعد کم ترین تعداد ہے۔ ایمسنٹی کے مطابق سب سے زیادہ موت کی سزائیں چین میں دی جاتی ہیں، جہاں یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ تاہم چونکہ چین میں یہ معلومات ریاستی سطح پر خفیہ رکھی جاتی ہیں، اس لیے درست تعداد کے بارے میں کوئی معتبر اعداد و شمار دستیاب نہیں۔