سویڈن، ’داعش کا مشتبہ جہادی‘ ملک بدر کر دیا جائے گا
18 جون 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسٹاک ہولم سے سویڈش حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس مشتبہ جہادی کی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اسے فوری طور پر ملک سے نکال دیا جائے گا۔
ملکی امیگریشن آفس کے مطابق، ’’اس فیصلے پر فوری عملدرآمد کیا جائے گا اور پولیس کو یہ ذمہ داری سونپی جا چکی ہے۔‘‘
اس چھیالیس سالہ شخص کا تعلق بوسنیا سے بتایا گیا ہے تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
اسٹاک ہولم میں حکام کے مطابق یہ مشتبہ شخص رواں ہفتے ہی اپنے چار بچوں کے ساتھ سویڈن پہنچا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ شینگن انفارمیشن سسٹم (ایس آئی یس) کے سکیورٹی ڈیٹا کے مطابق اس غیر ملکی کا تعلق ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سے رہا ہے۔
سویڈن کے ایک اخبار نے بتایا ہے کہ اس مشتبہ جہادی کو پولیس کی نگرانی میں ایک خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعے ساراژیوو منتقل کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس شخص کو رواں برس فروری میں ترکی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شبہ تھا کہ وہ داعش کی طرف سے لڑ چکا ہے۔ بعد ازاں اسے ترک حکومت نے زبردستی واپس بوسنیا روانہ کر دیا تھا۔
بعد میں سویڈن پہنچنے پر اس شخص نے مہاجر کے طور پر اپنی پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی، جس کے بعد اسے مہاجرین کے ایک مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
تاہم صورتحال اس وقت متنازعہ ہو گئی تھی، جب ملکی پولیس نے یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ اس شخص کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے۔ اس پر حکومت نے پولیس کے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس شخص کو جنیوا کنوینشن کے تحت پناہ کی درخواست جمع کرانے کا حق حاصل ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ بوسنیا سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو عمومی طور پر سویڈن میں پناہ نہیں دی جاتی کیونکہ بوسنیا ہیرسے گووینا یورپی یونین میں شمولیت کا خواہش مند ملک ہے اور متعدد یورپی ممالک نے اسے ایک ’محفوظ ریاست‘ کا درجہ دے رکھا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں عمومی سیاسی صورت حال اور قانون کی بالادستی سے متعلق حالات سازگار ہیں اور وہاں سیاسی انتقام بھی نہیں لیا جاتا اور نہ ہی غیر انسانی سزائیں دی جاتی ہیں۔