شامی صدر کو حکومت چھوڑنے کے لیے نہیں کہیں گے، روس
31 جنوری 2012عرب ریاست شام میں حکومت مخالف احتجاجی سلسلے کو 10 ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس پرتشدد احتجاج میں اب تک 5400 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے روس پر دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ شام کے حوالے سے ایک واضح نقطہ نظر اپنائے۔
ویٹو پاور رکھنے والا سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک روس یہ بات کئی مرتبہ باور کرا چکا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اس اہم ادارے میں کسی بھی ایسی قرار داد کو منظور نہیں ہونے دے گا جس میں شامی صدر کو حکومت چھوڑنے کے لیے کہا جائے۔
آسٹریلیا کے دورے پر پہنچے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل 31 جنوری کو کہا ہے: ’’ میرا نہیں خیال کہ روس کی یہ پالیسی ہے کہ لوگوں کو یہ کہا جائے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ حکومتوں کی تبدیلی ہمارا کام نہیں ہے۔‘‘ آسٹریلیا کے قومی براڈ کاسٹر اے بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے لاوروف کا مزید کہنا تھا: ’’ یہ شام کے لوگوں کا اپنا اختیار ہے کہ وہ جیسے چاہیں اپنا ملک چلائیں، کیسے اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور کونسی اصلاحات، بغیر کسی بیرونی مداخلت کے۔‘‘
تاہم روسی وزیر خارجہ نے یہ بات واضح کی کہ روس کا یہ نقطہ نظر اس وجہ سے نہیں ہے کہ شامی صدر ان کے حلیف ہیں: ’’ ہم دوست نہیں ہیں اور نہ ہی ہم صدر اسد کے حلیف ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ صدر بشار الاسد کا حکومت میں رہنا وہاں کے بحران کا حل ہے۔‘‘
دوسری طرف امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے شام میں تشدد کی نئی لہر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سلامتی کونسل سے مداخلت کرنے کے لیے کہا ہے۔کلنٹن کے بقول اس عالمی ادارے کو شامی حکومت کو تشدد کے خاتمے کے حوالے سے ایک واضح پیغام بھیجنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دمشق حکومت نے مخالفین کے خلاف کارروائیاں سخت کر دی ہیں اور گزشتہ دنوں کے دوران ہی سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل آج ہونے والے اجلاس میں شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: ندیم گِل