1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہاب ثاقب کے نمونوں کے ساتھ امریکی کیپسول زمین پر واپس

25 ستمبر 2023

بینو نامی شہاب ثاقب کے پتھرکے ٹکڑوں اور دھول کے ذرّات کے نمونے لے کر امریکی کیپسول ریاست یوتھا میں اتوار کے روز اتر گیا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان نمونوں سے یہ سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی کہ زمین کیسے قابل رہائش بنی۔

https://p.dw.com/p/4Wl3P
ناسا کا یہ کیپسول سن 2020 میں بینو کی سطح پر اترا اور اس کی پتھریلی سطح سے تقریباً نو اونس (250 گرام) دھول جمع کی
ناسا کا یہ کیپسول سن 2020 میں بینو کی سطح پر اترا اور اس کی پتھریلی سطح سے تقریباً نو اونس (250 گرام) دھول جمع کیتصویر: NASA/Keegan Barber/Handout via REUTERS

اپنی سات سالہ طویل مہم کو مکمل کرتے ہوئے امریکی خلائی تنظیم، ناسا، کا خلائی کیپسول ایک شہاب ثاقب کی سطح سے پتھروں کے ٹکڑوں اور دھول کے ذرات کے نمونے لے کر اتوار کے روز امریکی ریاست اوٹاہ میں بحفاظت اتر گیا۔

اوسیرس ریکس نامی کیپسول کے اوٹاہ ریاست کے صحرا میں پیراشوٹ کے ذریعے اترنے کے بعد فلائٹ کنٹرول نے اعلان کیا، "ہم زمین پر پہنچ گئے ہیں۔"

اوسیرس ریکس کیپسول بینو نامی شہاب ثاقب سے پتھر کے ٹکڑوں اور دھول کے جو نمونے لے کر آیا ہے اس کی مقدار تقریباً ایک پیالے کے برابر ہے۔

یہ زمین پر لائے گئے کسی شہاب ثاقب کا تیسرا اور سب سے بڑا نمونہ ہے۔

زمین سے 290 ملین کلو میٹر دور سیارچہ، نمونے آج لیے جائیں گے

ناسا کی خلاء باز سنیتا ولیمز، جو اس وقت اپنی خلائی مشن کی تربیت کے سلسلے میں یوتھا میں موجود ہیں، نے اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یہ بہت شاندار ہے۔ یہ بہت حیرت انگیز ہے۔ ایسا صرف فلموں میں ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔"

کیا زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی ہے؟

اوسیرس ریکس مشن کی اہمیت کیا ہے؟

ناسا نے یہ مشن ستمبر سن 2016 میں ایریزونا یونیورسٹی کے ساتھ مل کر بینو سے نمونے اکٹھے کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔ اسے نظام شمسی کی سب سے' خطرناک چٹان' بھی کہا جاتا ہے اور اگلی صدی کے آخر میں اس کا ہماری زمین کے ساتھ ٹکراؤ کے امکان ہیں۔

زمین سے ممکنہ طور پر ٹکرانے والے شہاب ثاقب سےبچاؤ کے اقدامات

ناسا کا یہ کیپسول سن 2020 میں بینو کی سطح پر اترا اور اس کی پتھریلی سطح سے تقریباً نو اونس (250 گرام) دھول جمع کی۔

ناسا کی سائنسدان ایمی سائمن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ نمونہ واقعی تاریخی ہے۔ ''اپولو چاند کی چٹانیں'' زمین پر واپس آنے کے بعد سے یہ سب سے بڑا نمونہ ہو گا جو ہم واپس لائے ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نمونوں کی جانچ کی بات اس بات کی بہتر سمجھ حاصل ہوسکے گی کہ ہمارا نظام شمسی کیسے بنا اور زمین کیسے قابل رہائش بنی۔

برطانیہ کی ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے خلانورد ڈینئیل براؤن نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ "ان نمونوں کے معائنے سے ہم نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں مزید جان سکیں گے کہ اس وقت کے پتھروں کی کیمیائی خصوصیات کیا تھیں اور پانی کیسے وجود میں آیا جب کہ زندگی بنانے والے مالیکیول کیسے بنے؟"

نمونے کو جانچ کے لیے ٹیکساس میں ناسا کی لیبارٹریوں میں لے جایا گیا۔ ناسا کے مطابق ان نمونوں کے معائنے کے لیے چند ہفتے درکار ہوں گے۔ ناسا ان نمونوں کو اکتوبر میں عوام کے سامنے لانا چاہتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق بینو پر ساڑھے چار ارب برس پرانے پتھر موجود ہیں۔

کیا کوئی سیارچہ ہماری زمین کو تباہ کر سکتا ہے؟

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)