مہاجرین کے سماجی انضمام کے لیے نئے قوانین بنائیں گے، میرکل
8 اپریل 2016نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق انگیلا میرکل نے یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کا بھرپور دفاع بھی کیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیمیں اس معاہدے اور اس پر جلد بازی میں عمل درآمد کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
’پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانے پڑے گا‘
میرکل کا کہنا تھا کہ یورپ میں جاری مہاجرین کے بحران کو ختم کرنے اور مزید تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے یہ معاہدہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے بدلے میں ترک شہریوں کو آئندہ یورپی یونین میں بغیر ویزا آمد کی سہولت مہیا کی جائے گی جبکہ انقرہ کو مہاجرین کے بحران کی وجہ سے مالی امداد تو ابھی سے فراہم کی جا رہی ہے۔
جرمن چانسلر ماضی میں ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت کرتی رہی ہیں تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرنے اور اپنے شہریوں کے لیے سہولیات حاصل کرنے کی خاطر مذاکرات کا حق حاصل ہے۔
تارکین وطن کو یونان سے ملک بدر کیے جانے کے معاملے پر میرکل کا کہنا تھا، ’’مجھے پورا یقین ہے کہ اس بات کو واضح کرنا کہ ہم غیر قانونی ترک وطن کے خلاف ہیں، بالکل صحیح اقدام ہے۔‘‘ میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔
جرمن عوامی نشریاتی اداروں، اے آر ڈی اور زیڈ ڈی ایف کے جانب سے کرائے گئے دو حالیہ لیکن مختلف جائزوں کے مطابق جرمن شہریوں کی اکثریت اس معاہدے کے مؤثر ہونے پر یقین نہیں رکھتی۔ جائزے کے نتائج کے مطابق 38 فیصد جرمنوں کی رائے میں اس معاہدے کے ذریعے تارکین وطن کی آمد روکی جا سکتی ہے جب کہ صرف 17 فیصد لوگوں کے خیال میں ترکی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر 69 فیصد رائے دہندگان نے یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والی ڈیل کی مخالفت کی۔
ان دونوں جائزوں میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ چانسلر میرکل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ استحکام آیا ہے۔ گزشتہ برس تارکین وطن کے لیے جرمن سرحدیں کھول دینے اور مہاجر دوست پالیسی اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
اسی دوران جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ ترکی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز بہتر انداز میں ہوا ہے لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی آنے والے نئے تارکین وطن کی تعداد میں کمی بلقان کی ریاستوں کی جانب سے اپنی سرحدیں بند کرنے کے نتیجے میں ہوئی۔