يورپی خواتين سياستدانوں کو بھی جنسی ہراسی کا سامنا، رپورٹ
17 اکتوبر 2018يورپی يونين کی رکن رياستوں سے تعلق رکھنے والی خواتين سياستدانوں اور ارکان پارليمان کے خلاف جنسی ہراسی اور انہيں لاحق تشدد کے خطرے پر يہ رپورٹ منگل سولہ اکتوبر کے روز جاری کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق سروے ميں شامل پچاسی فيصد عورتوں کو کبھی نہ کبھی نفسياتی دباؤ اور ذہنی تشدد کا سامنا رہا ہے۔ اڑسٹھ فيصد کا کہنا ہے کہ ان کے لباس، جنس اور رنگ و نسل کی وجہ سے ان پر جملے کسے گئے۔ پچيس فيصد عورتوں کا دعویٰ ہے کہ انہيں جنسی طور پر ہراساں بھی کيا گيا۔
يورپی پارليمان کے ارکان کی ’انٹر پارليمينٹری يونين‘ اور ’پاليمينٹری اسمبلی آف کونسل آف يورپ‘ کی رپورٹ ميں يورپ کے مختلف ممالک ميں خدمات سرانجام دينے والی خواتين سرکاری ملازمين کے خلاف جاری جنسی ہراسی اور انہيں درپيش مسائل پر سے پردہ اٹھايا گيا ہے۔ سروے ميں پينتاليس يورپی ممالک کی 123 عورتوں سے ان کی رائے لی گئی۔ ان ميں اکياسی اراکين پارليمان تھيں جبکہ بياليس پارليمانی عملے کی ارکان۔
نتائج کے مطابق چاليس سال سے کم عمر عورتوں کو سب سے زيادہ نازک سمجھا جاتا ہے۔ عملے کی اراکين کی انچاس فيصد تعداد کا دعوی ہے کہ انہيں دفتر ميں ہی ہراساں کيا گيا۔ ستر فیصد کيسز ميں ايسے عوامل کرنے والے مرد سياستدان تھے۔ خواتين ارکان پارليمان کی ساڑھے تيئس فيصد تعداد اور عملے کی چھ فيصد عورتوں نے ہراساں کيے جانے کی باقاعدہ شکايت کی۔
اس رپورٹ کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے ’انٹر پارليمينٹری يونين‘ کی صدر گابريئيلا کيواس نے کہا، ’’ايک خاتون رکن پارليمان کے طور پر ميں ان نتائج سے کافی پريشان ہوں۔ يہ ظاہر کرتے ہيں کہ پارليمانوں ميں جنسی ہراسی کا مسئلہ ہمارے اندازوں سے زيادہ بڑا ہے۔‘‘ ان کے بقول يہ نہ صرف عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ يہ جمہوريت کے ليے بھی نقصان دہ ہے۔
يہ رپورٹ ايک ايسے موقع پر جاری کی گئی ہے جب ايک ہفتے بعد يورپی پارليمان ميں ايک بلاگ شروع کيا جا رہا ہے، جس پر متاثرين اپنے تجربات بيان کر سکيں گے۔