پاک بھارت تجارت، زرعی شعبے کے تحفظات
24 فروری 2014پاکستان میں کاشتکاروں کی ایک مؤثر تنظیم فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان (فیپ) کے صدر طارق بچہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی کاشتکار پاک بھارت تجارت کھولنے کے مخالف نہیں ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے کسانوں کو ڈبلیو ٹی او کے اصولوں کے مطابق ’برابر کا پلے گراؤنڈ‘ ملنا چاہیے تا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔
طارق بچہ کے مطابق بھارت اپنے زرعی شعبے کو کافی مراعات اور سہولتیں دیتا ہے۔ بھارت میں کسانوں کو پاکستان کے مقابلے میں زرعی مداخلات بھی سستی ملتی ہیں۔ پاکستانی حکومت اپنی کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتی۔ اس لیے پاکستان میں زرعی اجناس کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ ان کے بقول پاکستانی حکومت نے حال ہی میں واہگہ بارڈر کو پاک بھارت تجارت کے لیے چوبیس گھنٹے کھولنے کا عندیہ دیا ہے اور اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کی تمام بڑی زرعی منڈیاں بھارت سے محض چار پانچ گھنٹے کی مسافت پر ہوں گی۔
طارق بچہ کے بقول حکومت بھارت سے زرعی اجناس کی تجارت کے حوالے سے امریکا اور کینیڈا کی طرح الگ سے ایک معاہدہ کرے اور زرعی تجارتی مذاکرات میں دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے نمائندوں کو بھی شریک کیا جائے۔
طارق بچہ کہتے ہیں کہ بھارت جو زرعی اجناس نہیں اگاتا، انہیں پاکستان سے آنے دے اور پاکستان جو زرعی اجناس نہیں اگاتا، انہیں بھارت سے آنے دیا جائے۔ اسی طرح موسمی پھلوں کی تجارت بھی ہونی چاہیے، جیسے کینو پاکستان میں فروری میں مارکیٹ میں آتا ہے، بھارت میں یہ نومبر میں آتا ہے جب یہ پاکستان میں ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ پاکستان میں آم جولائی میں آتا ہے جب کہ بھارت میں اپریل میں آنے والی آم کی فصل تقریبا ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
طارق بچہ کے مطابق پاک بھات زرعی تجارت پر ایک سٹڈی ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی بننی چاہیے جو ہر سال پاک بھارت زرعی تجارت کی صورتحال کا جائزہ لے کر بہتری کے اقدامات تجویز کرتی رہے۔
پاکستان باسمتی گرووز ایسوسی ایشن کے صدر حامد ملہی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی کسان بہت محنت کرتا ہے، اور کئی پاکستانی زرعی اجناس عالمی منڈی میں بھارتی اجناس کا مقابلہ بھی کر رہی ہیں، جیسے پاکستان دو ارب ڈالر کا باسمتی چاول ہر سال عالمی منڈی میں بیچتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی کاشتکار نے اپنے ملک کو گندم، چینی، چاول، اور گنے سمیت بہت سی فصلوں میں خود کفیل بھی بنا رکھا ہے۔ اگرسستی بھارتی زرعی اجناس کی وجہ سے پاکستانی کاشتکاروں کو کاشتکاری کی لاگت بھی وصول نہ ہوئی تو وہ کاشتکاری جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ اس طرح پاکستان کے زرعی شعبے میں سب سے بڑی افرادی قوت کا حامل سیکٹر بے روزگاری کا شکار ہو جائے گا اور یہ صورت حال جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ان کے بقول پاک بھارت تجارت کا موجودہ حجم دو ڈھائی ارب ڈالر کے قریب ہے اور یہ تجارت بھی بھارت کے حق میں ہے۔ بلا سوچے سمجھے زرعی تجارت کھولنے سے بھارت کو مزید فائدہ اور پاکستان کو مزید نقصان ہو گا۔ ان کے خیال میں بھارتی زرعی اجناس پر منصفانہ ڈیوٹی عائد کی جانی چاہیے۔ کسان بورڈ پاکستان، اور کسان مزور اتحاد سمیت پاکستانی کسانوں کی کئی تنظیموں نے اس سلسلے میں اپنے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔