1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ٹریفک کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ

Afsar Awan14 جولائی 2012

پاکستان میں توانائی میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے متبادل ذرائع کے حوالے سے کام کرنے والی ایک کمپنی نے سڑک پر گزرنے والی ٹریفک کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15XcA
تصویر: picture-alliance/ dpa

پاکستان کے بعض شہروں کی مصروف شاہراہوں اور خصوصاً اسلام آباد کی چند گرین بیلٹس پر ایسی وِنڈ ٹربائنز لگائی گئی ہیں جو قریب سے گزرنے والی ٹریفک سے پیدا ہونے والے ہوا کے دباؤ کے ذریعے بجلی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ونڈ ٹربائنز ایک سے 10 کلو واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹربائنز کے ساتھ سولر پینلز بھی نصب کیے گئے ہیں، جس سے بجلی کی اضافی پیدوار ممکن ہو گئی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں لگائی جانے والی یہ ٹربائنز عموماً ایک سے دو کلو واٹ بجلی پیدا کررہی ہیں جس کی طاقت سے بیس بجلی کے کھمبے یا پانچ گھر روشن ہو سکتے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں قدرتی ہوا سے ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے
سندھ اور بلوچستان میں قدرتی ہوا سے ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہےتصویر: AP

اسلام آباد اورکراچی میں ایسی ہی ونڈ ٹربائنز لگانے والی ایک نجی کمپنی AGECO Economia کے منیجنگ ڈائریکٹر اسلم آزاد کے مطابق اسلام آباد میں جناح ایونیو اور دامن کوہ جبکہ کراچی میں شاہراہ قائدین پر نصب کی گئی دو کلو واٹ کی ونڈ ٹربائنز کمرشل استعمال کے لیے لگائی جانے والی عام ونڈ ٹربائنز سے نہ صرف ٹیکنالوجی میں مختلف ہیں بلکہ یہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے زیادہ بہتر ہیں۔ اسلم آزاد کے مطابق تین لاکھ پاکستانی روپے کی لاگت سے دو کلو واٹ کی Vertical Axis Wind Turbineسے پچیس برس تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے، ’’جتنی کمرشل ونڈ ٹربائنز لگتی ہیں ان کا 3.5 میٹر فی سیکنڈ پر کٹ آف لیول ہے۔ اور اس کا کٹ آف لیول 0.5 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ یعنی پلس 0.5 میٹر پر یہ بجلی کی پیداوار شروع کرتی ہے۔ جہاں کمرشل ونڈ ٹربائن کی جنریشن شروع ہوتی ہے وہاں یہ Vertical Axis Wind Turbine چالیس فیصد انرجی لیول پر جا چکی ہوتی ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی کمرشل ٹربائن لگ رہی ہیں ان کی اوسط جنریشن 30 سے 35 فیصد تک ہے۔ جبکہ ہماری ٹربائن سے 80 فیصد سے زیادہ توانائی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

اسلام آباد میں لگائی گئیں سولر اسٹریٹ لائٹس
اسلام آباد میں لگائی گئیں سولر اسٹریٹ لائٹستصویر: AGECO (Pvt) Ltd


صرف ہوا اور سورج کی روشنی سے ہی نہیں بلکہ ٹریفک پاور انرجی سے بھی توانائی حاصل کرنے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اسلم آزاد کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے تحت اسپیڈ بریکرز کی شکل کے خصوصی نظام کے نیچے ایسے یونٹ لگائے جائیں گے جو گاڑیاں گزرنے سے بجلی پیدا کریں گے، ’’ اس میں ایک اسپیڈ بریکر یا ایک یونٹ پانچ سو واٹ سے دو کلو واٹ تک کی بجلی پیدا کر سکے گا۔ انہیں ایسی جگہ نصب کیا جائے گا جہاں گاڑیاں آہستگی سے گزرتی ہوں مثلاً سڑکوں کے موڑ وغیرہ۔ یہاں موجود اسپیڈ بریکرز کے نیچے یہ پینلز کی صورت میں نصب ہوں گے۔ ایک علاقے میں اگر دو سے تین اسپیڈ بریکر ہوں اور ان میں یہ سسٹم لگایا جائے تو اس سے اتنی بجلی حاصل ہو سکے گی جو ایک سو گز کے علاقے کی بجلی کی ضرورت کو پورا کر دے گی۔‘‘

ونڈ ٹربائنز کے ساتھ سولر پینلز بھی نصب کیے گئے ہیں، جس سے بجلی کی اضافی پیدوار ممکن ہو گئی ہے
ونڈ ٹربائنز کے ساتھ سولر پینلز بھی نصب کیے گئے ہیں، جس سے بجلی کی اضافی پیدوار ممکن ہو گئی ہےتصویر: AGECO (Pvt) Ltd

اسلم آزاد کے مطابق توانائی کے ان متبادل ذرائع کے استعمال کے لیے حکومتی اداروں کی جانب سے اب تک سب سے مثبت ردعمل انجینئرینگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کی جانب سے آیا ہے۔ اس کے بعد آلٹرنیٹ انرجی ڈیولپمنٹ بورڈ کی جانب سے اچھا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ تاہم ملک میں بجلی کے شدید بحران کے باوجود حکومت کی جانب سے توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینے کے لیے حوصلہ افزا اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ اسلم آزاد مزید کہتے ہیں، ’’ہم نے CDA کو جناح ایوینیو میں مفت اسٹریٹ لائٹس لگا کر دینے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس کی منظوری تو دی جاچکی ہے تاہم اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اب تک حتمی لیٹر موصول نہیں ہوا ہے۔‘‘

اندازوں کے مطابق پاکستان میں بجلی کی حالیہ طلب 15 ہزار میگا واٹ تک ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صرف سندھ اور بلوچستان میں قدرتی ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے لیے حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی

ادارت: افسر اعوان