سال 2024ء کا اختتام اب ہفتوں اور دنوں کی نہیں بلکہ گھنٹوں کی بات ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں کی اکثریت مہنگائی کی چکی میں پس پس کر اپنی مادی برداشت کی آخری حدوں کو پہنچ چکی ہے۔ ملک میں واضح سیاسی تقسیم بھی ہے اور کس کے ساتھ کس طرح کا 'انصاف‘ ہو رہا ہے، یہ ایک طویل بحث بن چکی ہے۔ جہاں تک امن عامہ کی صورت حال کا تعلق ہے، تو اس سال بھی پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ شہری دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں جان سے گئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال بھی پاکستان میں مختلف عسکریت پسند گروپوں اور ممنوعہ شدت پسند تنظیموں کے دہشت گردانہ حملوں میں سکیورٹی فورسز کے بہت سے اہلکاروں سمیت ایک ہزار کے قریب افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں اسی سال مجموعی طور پر 900 سے زائد عسکریت پسند بھی ہلاک ہو گئے اور رواں برس گزشتہ نصف عشرے کا سب سے ہلاکت خیز سال رہا۔
دہشت گردی، مختلف طرح کے مہلک جرائم اور ٹریفک حادثات سمیت اس سال پاکستان میں جتنے بھی شہری ہلاک ہوئے، ان کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ پاکستانی اس سال بھی اپنا وطن چھوڑ کر یا تو قانونی ترک وطن کر کے یا پھر انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کو وسیلہ بنا کر اپنے لیے بیرون ملک بہتر سماجی اور اقتصادی مستقبل کی خواہش لیے پاکستان سے رخصت ہو گئے۔
ایسے ہزارہا پاکستانیوں میں سے جنہوں نے بہتر زندگی کے لیے خطرناک زمینی اور سمندری راستوں سے اسمگل ہو کر یورپ کا رخ کرنا چاہا، ان میں سے بیسیوں پاکستانی اس سال بھی ان سمندروں کے پانیوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے، جن کو پار کر کے انہیں کسی نہ کسی یورپی ملک پہنچنا تھا۔
پاکستان میں رہنے والے اور وطن کو خیرباد کہہ دینے والے اس ملک کے باشندوں کی بہت بڑی تعداد ان ''بہت مشکل ہو گئے‘‘ حالات کی شکایت کرتی نظر آتی ہے، جن میں رہتے ہوئے، ایسے پاکستانیوں کے بقول، ''گزارہ کرنا انتہائی مشکل‘‘ ہو چکا ہے۔ ایسے پاکستانی مہنگائی، بے روزگاری، رشوت خوری، اقربا پروری، سماجی ناانصافی اور کئی دیگر مسائل کا متواتر ذکر کرتے سنائی دیتے ہیں۔
ایسے انتہائی غیر مطمئن پاکستانیوں کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ بات یہ ہے کہ پاکستان اپنےعوام کو وہی کچھ لوٹائے گا، جو اسے ان سے ملتا ہے۔ پاکستان تو پاکستانیوں ہی سے ہے۔ کوئی بھی ملک صرف کوئی خالی زمینی خطہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے عوام سے ہی تشکیل پاتا ہے اور عوام کی سوچ اور رویے ہی اس ملک اور معاشرے کی پہچان بنتے ہیں۔
جو بات اکثر پاکستانی اپنی اپنی ذاتی حیثیت میں تسلیم نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان میں رشوت خوری ایک بڑا مسئلہ ہے، تو اس لیے کہ پاکستانی باشندے بحیثیت مجموعی رشوت لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں۔ سرکاری دفاتر سے لے کر پولیس تک کے شعبے میں اگر رشوت لی اور دی جاتی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوسطاﹰ ایک عام پاکستانی یہ سوچتا ہے کہ ملک سے رشوت تو ختم ہونا چاہیے لیکن محض ایک شہری کے طور پر اس اکیلے کے رشوت نہ لینے یا نہ دینے سے بھلا پورا نظام تو ٹھیک نہیں ہو جائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ خود کو سرکاری دفتروں یا تھانوں کے سینکڑوں چکر لگانے سے بچایا جائے اور اپنے کیس یا فائل کو ''پہیے لگا دیے جائیں۔‘‘
یہی وہ بڑا فرق ہے جو اجتماعی حوالے سے ایمان دار اور کرپٹ معاشروں میں سب سے فیصلہ کن تفریق کی وجہ بنتا ہے۔ ایک طرح کے معاشرے میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ پورے نظام کو درست کرنے کے ذمے دار نہیں اور اپنے ضمیر کے سامنے صرف اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں کا اجتماعی طور پر انصاف پسند ہونا، ان کے شہریوں کی انفرادی انصاف پسندی ہی سے جنم لیتا ہے۔
دوسری طرف ایسے معاشرے ہیں، جن میں زیادہ تر لوگ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے اور انہیں راہ چلتے اچھے یا برے کردار کی سندیں بانٹتے رہنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ انفرادی طور پر ایسے کسی بھی سماج میں زیادہ تر باشندوں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ مجموعی نظام خراب تو بہت ہے، اسے ٹھیک ہونا بھی چاہیے، لیکن صرف کسی ایک فرد کے رویے سے بھلا کیا فرق پڑے گا؟
اس طرح کی سوچ کے حامل انسان یہ بھول جاتے ہیں کہ جو سیلاب اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے، وہ آسمان سے سیلاب بن کر زمین پر نہیں گرتا، بلکہ بارش کے چھوٹے چھوٹے قطروں سے مل کر بنتا ہے۔ یہی قطرے اگر ایک دو ہوں تو خشک زمین انہیں جذب کر کے ختم کر دیتی ہے۔ یہی قطرے اگر بے شمار ہوں اور ایک ہو جائیں، تو سیلاب بن جاتے ہیں۔
اب جب کہ سال 2025ء کا پہلا سورج طلوع ہونے کو ہے، پاکستانیوں کو ایک بار شاید یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس سے قطع نظر کہ وہ پاکستان سے کیا چاہتے ہیں، خود پاکستان ان سے کیا چاہتا ہے؟ آج کا پاکستان بھی ایک جیتا جاگتا اور ہر لمحے دل کی طرح دھڑکنے والا ملک ہے۔
آج کا پاکستان اگر صرف ایک بار، ایک ہی آواز میں تمام پاکستانیوں سے مخاطب ہو کر کچھ کہنا چاہتا، تو وہ شاید صرف یہ درخواست ہوتی: ''تم مجھ سے ہو۔ میں تم سے ہوں۔ کیا تم میرے اور اپنے اچھے مستقبل کے لیے اپنے اپنے قول اور فعل کا تضاد ختم کر سکتے ہو؟‘‘
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔