پاکستانی انسانی حقوق کے کارکنان حکومتی نشانے پر، اقوم متحدہ
2 اکتوبر 2023اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی طرف سے پیش کردہ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان ان 40 ممالک میں شامل ہے، جہاں 220 افراد اور انسانی حقوق کی 25 سے زائد تنظیموں کو اقوام متحدہ سے تعاون کرنے پر دھمکیوں اور انتقام کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان اس رپورٹ کا خیرمقدم کر رہے ہیں جبکہ حکومت نے اسے مسترد کیا ہے۔
یہ رپورٹ جینیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کے چھ اکتوبر تک جاری رہنے والے اجلاس میں پیش کی گئی۔اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون، اس کے نمائندے اور انسانی حقوق کے شعبے میں اس کے طریقہ کار نامی اس رپورٹ میں مئی 2022 سے لے کر 30 اپریل 2023 تک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سول سوسائٹی کے کارکنان کی نگرانی کو بڑھایا گیا جبکہ ان کے خلاف قانونی اقدامات بھی کیے گئے اور سفری پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ کچھ کارکنان کو سزائیں بھی دی گئیں۔
رپورٹ کا خیرمقدم
انسانی حقوق کے کارکنان نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان میںجبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی کارکن سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانا بہت مشکل ہے۔ لہذا عالمی اداروں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا اقوام متحدہ اور دوسری بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے انسانی حقوق کا مسئلہ اگر اٹھایا جائے گا تو اس کا اثر ہوگا کیونکہ ہم جب پاکستان میں اس حوالے سے آواز اٹھاتے ہیں تو ہمارے لوگوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔‘‘
دھمکیاں اور انتقامانہ کارروائیاں
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کے لئے بہت سی دشواریاں ہیں۔حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے دس ہزار کے قریب کارکنان پابند سلاسل ہیں جب کہ بلوچ، پختون، مہاجر، سندھی اور دوسری چھوٹی قومیتوں کے افراد بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا گلا کرتے ہیں۔ احمدی، ہندو اور عیسائی امتیازی سلوک پر حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کے علمبردار ادریس خٹک کو ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ہی فوجی عدالت سے سزا سنا چکی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی ایک اور کارکن گلالئی اسماعیل کے والدین کو بھی مبینہ طور پر اس لیے مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کی بیٹی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے کئی بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھا رہی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں دشواریاں ہی دشوریاں ہیں۔
سمی دین بلوچ کا دعوی ہے کہ ان کے چچا کو صرف اس لیے اٹھایا گیا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ''انہوں نے میرے انکل کو بتایا کہ سیمی کو کہو کہ وہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ یا انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے رابطہ کرنا چھوڑ دے۔‘‘
سمی دین بلوچ کے مطابق بلوچستان میں انسانی حقوق کے ایک اور کارکن لکمیر بلوچ کو صرف اس لیے اٹھا لیا گیا کیونکہ وہ یو این کے ورکنگ گروپ سے رابطے میں تھے۔'' لکمیر بلوچ جبری طور پرگمشدہ افراد کے حوالے سے بلوچستان میں تفصیلات جمع کر رہے تھے، جس کے بعد انہیں اغوا کر دیا گیا۔‘‘
سوئٹزرلینڈ میں مقیم یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیئرمین شوکت علی کشمیری کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر یا پاکستان کے دوسرے علاقوں میں کسی طرح کا بھی پروگرام کرتی ہے تو اسے شدید دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ''حال ہی میں ہم نے اسلام آباد ہوٹل میں ایک کانفرنس رکھی لیکن ہوٹل پہ دباؤ ڈال کے اس کانفرنس کو منسوخ کرا دیا گیا۔ پھر ہم نے راولپنڈی پریس کلب میں ایک پروگرام رکھا اس کو بھی منسوخ کرانے کی کوشش کی گئی۔‘‘
شوکت علی کشمیری کے مطابق کیونکہ وہ جینوا میں انسانی حقوق کے حوالے سے کئی فورمز پر شرکت کرتے ہیں اس لیے ان کے دوست احباب اور پارٹی کے لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ''میں جینوا اور دوسری دوسرے مقامات پر انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف فورمز میں شرکت بھی کرتا ہوں اور وہاں بولتا بھی ہوں اس لیے ہماری پارٹی کے لوگوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘‘
تنقید کی اجازت ہے
تاہم حکومتی حلقے اس رپورٹ پر تنقید کر رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں اور بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں بہت ساری تنظیمیں نہ صرف سیاسی جماعتوں اور حکومت پر تنقید کرتی ہیں بلکہ وہ ریاستی اداروں پر بھی تنقید کرتی ہیں اور پاکستان میں اس حوالے سے بعض مغربی ممالک کے مقابلے میں بھی زیادہ آزادی ہے۔‘‘
جان اچکزئی کا دعوی تھا کہ پاکستان میں بین الاقوامی این جی اوز پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ''تاہم ہر حکومت کے اپنے پروٹوکولز اور طریقہ کار ہوتا ہے اور بین الاقوامی تنظیمیں قانونی طور پر اس بات کی پابند ہیں کہ ان پروٹوکول کی پیروی کریں۔ اس طرح کے پروٹوکولز امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی ہیں۔"