علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
23 مئی 2016چھبیس سالہ علی حیدر کا تعلق پاکستانی پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے۔ حیدر 2011ء میں سٹوڈنٹ ویزا حاصل کر کے برطانیہ گیا، جہاں تقریباﹰ دس مہینے قیام کرنے کے بعد اس نے جرمنی آنے کا فیصلہ کیا۔ مارچ 2012ء میں حیدر نے جرمنی پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی، جس کے بعد اسے جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے شہر کارلس رُوہے کے قریب پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں رہائش فراہم کر دی گئی۔
جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
چار سال سے زائد عرصے تک اس کا کیس چلتا رہا، جس دوران علی حیدر کو امید ہو چلی تھی کہ اب جرمنی میں اس کا مستقبل محفوظ ہے۔ حیدر کو کام کرنے کی اجازت بھی مل گئی اور وہ فنی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جرمن زبان سیکھنے کے لیے کلاسیں بھی لینے لگا۔
اس دوران جس طرح جرمن اداروں اور افراد نے علی حیدر کی مدد کی اس کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حیدر کا کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمنی میں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بہت اچھے طریقے سے میرا مستقبل بنایا۔ انہوں نے میری تعلیم و تربیت کا خاص طور پر خیال کیا۔ میرے دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی تھیں۔‘‘
اس پاکستانی تارک وطن کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی میں نوکری بھی کرتا رہا تاہم پچھلے ڈیڑھ برس سے اس نے پڑھائی شروع کر رکھی تھی۔ جب اسے ملک بدر کیا گیا تو وہ جرمن زبان میں ’بی ون‘ درجے تک پہنچ چکا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے علی حیدر نے جرمنی میں اپنی تعلیم اور تربیت کے بارے میں بتایا، ’’مجھے کہا گیا تھا کہ جرمن زبان کا سرٹفیکیٹ حاصل کرنے کے بعد کوئی مقامی کمپنی مجھے کام دے دے گی۔ جرمن زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ میں ہفتے میں ایک روز ایک فرم میں عملی تربیت حاصل کرنے بھی جاتا تھا۔‘‘
اس عرصے میں حیدر نے جرمنی میں بطور کرکٹر بھی اپنا مستقبل بنانا شروع کر دیا۔ کارلس روہے کے مقامی کلب میں کھیلنے کے ساتھ ساتھ پچھلے برس اسے جرمن صوبہ باڈن ورٹمبرگ کی نمائندگی کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ علی حیدر کے بقول، ’’میں چار سال تک کارلس روہے کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتا رہا اور گزشتہ برس مجھے باڈن ورٹمبرگ کی ٹیم کی نمائندگی کا موقع بھی ملا۔ اس سال بھی مجھے اپنے کلب اور باڈن ورٹمبرگ کی طرف سے کھیلنا تھا۔‘‘
چار سال کے طویل عرصے کے بعد مقامی عدالت کے جج نے حیدر کی سیاسی پناہ کی ابتدائی درخواست مسترد کر دی۔ اس کا کہنا ہے، ’’جج نے مجھے بتایا کہ وہ میرے کیس سے مطمئن نہیں ہیں، جس کے بعد میں نے وکیل کے ساتھ مشورہ کر کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی، جو میرا قانونی حق تھا۔‘‘
لیکن پھر سب کچھ حیدر کی توقعات کے برعکس ہوا۔ آٹھ مئی کے روز جب وہ کرکٹ کھیلنے کے بعد کمرے پہنچا تو وہ شام اس کے لیے معمول کی شام تھی لیکن رات دو بجے جب وہ سو رہا تھا تو اس کے کمرے میں جرمن پولیس آن پہچنی۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے حیدر کا کہنا تھا، ’’انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں کارلس روہے حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مجھے ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ مجھے کن سفری دستاویزات پر اور کہاں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تفصیلات فرینکفرٹ میں دی جائیں گی۔ فرینکفرٹ والوں نے کہا کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد ہی مجھے دستاویزات مہیا کی جائیں گی۔‘‘
حیدر کو اسلام آباد جانے والی پرواز میں سوار کر دیا گیا۔ جب وہ اسلام آباد پہنچا تو اسے جو دستاویزات ملیں، حیدر کے بقول ان میں اس کے نام اور تصویر کے علاوہ باقی سبھی معلومات اس کی نہیں تھیں۔
علی حیدر کو شکوہ ہے کہ پاکستانی ایف آئی اے کے اہلکاروں کو جب اس نے اس مبینہ غلطی کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اس کی مدد کرنے کے بجائے اسے بتایا کہ دو شناختی دستاویزات کا حامل ہے۔
علی حیدر کے مطابق ابتدا میں اسے جیل لے جایا گیا لیکن بعد ازاں اسے اس شرط پر جانے دیا گیا کہ وہ پاکستان میں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں ایف آئی اے کو مطلع کرتا رہے گا۔ حیدر کو شکوہ ہے کہ ایف آئی اے حکام اسے ہراساں کرتے ہیں اور اس کا کیس کلیئر کرنے میں اس سے تعاون نہیں کیا جا رہا۔