1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور میں مقامی حکومتوں کے نمائندوں کا احتجاج

فریداللہ خان، پشاور
2 جنوری 2025

خیبرپختونخوا کے منتخب میئرز، تحصیل چیئرمین اور ویلج کونسلرز کو گزشتہ تین سال سے اختیارات اور ترقیاتی فنڈز سے محروم رکھا گیا۔ اسی تناظر میں یہ منتخب مقامی نمائندے احتجاج کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4olOa
مظاہرین پشاور میں احتجاج کے دوران
منتخب مقامی نمائندوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اختیارات اور فنڈز سونپے جائیں۔تصویر: Faridullah Khan/DW

ملک بھرکی طرح خیبر پختونخوا میں آئینی طور پر منتخب بلدیاتی نمائندوں کو گزشتہ تین برسوں سے ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا، جس کی بنا پر صوبے بھر کے بلدیاتی نمائندوں نے گزشتہ دو دن پشاور میں احتجاج کیا۔ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں نے اس سے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے پشاور میں احتجاج کیا تھا۔ پاکستان میں خود کو جمہوریت پسند قراردینے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گراس روٹ لیول پر منتخب افراد سے اختیارات چھین رکھے ہیں۔

پختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں کا موقف ہے کہ صوبائی حکومت نے ان کے اختیارات اور ترقیاتی فنڈز روک رکھے ہیں۔ پہلی بار احتجاج ہوا تو خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا، لیکن وعدے پورے نہ ہونے پر ان بلدیاتی نمائندوں نے پھرسے احتجاج شروع کر دیا ہے۔

پشاورکے جناح پارک میں جمع ہونے والے نمائندے جب اسمبلی بلڈنگ کی جانب بڑھے تو پولیس نے ان پر بے تحاشا آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ جب کہ ان کے 15  ساتھیوں کوحراست میں لے لیا گیا۔ اس دوران اسمبلی چوک میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔

اسی تناظر میں آج جمعرات کو وزیراعلیٰ کی جانب سےایک کمیٹی بنائی گئی تاکہ ان مقامی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور  مطالبات کے حل کی کوئی راہ نکالی جا سکے۔

بلدیاتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ تین سال سے ان کے اختیارات معطل ہیں، حالاں کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کے لیے ایک نرسری کا کام سرانجام دیتے ہیں لیکن صوبے میں پچھلے 11سال سے حکومت کرنے والی جماعت تحریک انصاف خود تواسلام آباد تک مظاہرے کرتی ہے لیکن وہ خود اپنے ہاں بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر لاٹھی چارج اور ٓآنسو گیس کا استعمال کرتی ہے۔

پشاور میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال
پولیس کے جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس استعمال کی گئی اور لاٹھی چارج کیا گیا۔تصویر: Faridullah Khan/DW

صدرلوکل گورنمنٹ کونسل حمایت اللہ مایارکا موقف

جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے حمایت اللہ مایار سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ہم پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے اور کوئی ایک گملا بھی نہیں توڑا گیا تھا لیکن ہمارے بندوں پر تشدد کیا گیا، انہیں گرفتار کیا گیا حالاں کہ ہم نے براہ راست عوام سے ووٹ لیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 32 اور37 کے تحت عوامی نمائندوں کو بااختیار بنایا گیا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف صرف اپنے لیے آئین و قانون کو جائز سمجھتی ہے۔ ''یہ خود وفاق سے اپنے حقوق مانگتے ہیں لیکن جب ہم آئین کے مطابق اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ انکار کر دیتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اب تک وہ وزیراعلیٰ سے چار بار ملاقات کر چکے ہیں اور ان کے مطالبات تسلیم بھی کیے گئے ہیں، تاہم اب تک یقین دہانیوں اور وعدوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

''ہم کہتے کہ اگر حکومت کو صوبائی اسمبلی یا کابینہ سے منظوری لینا ہے،  تو ہمیں وقت بتا دیں۔ خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کو بحال کیا جائے، 2021 میں جو رولز آف بزنس بنائے گئے ہیں، ان کو بھی بحال کیا جائے،  ہمارے 120 ارب روپے کے فنڈز ہیں، وہ تحصیل اور ویلج کونسل کو جاری کیے جائیں۔ ہمارے تین سال ضائع کر دیے گئے، تو اب ہمیں تین سال کے لیے توسیع دی جائے۔ یہ ہمیں جیلوں میں ضرور ڈالیں لیکن ہم اپنےحقوق کے لیےاحتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘‘

اپوزیشن کے زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے احتجاج کی حمایت کی

اس احتجاجی کیمپ میں صوبے کی کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے ہیں۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عنایت اللہ خان نے بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا، ''میں اس لاٹھی چارج کی مذمت کرتا ہوں۔ میں ان کے ساتھ یکجہتی کے لیے آیا ہوں۔ صوبائی حکومت یہ ظلم بند کرے کہ وہ جو اسلام آباد سے اپنے حقوق مانگتے ہیں، اپنے ہاں ان لوگوں کو ان کے حقوق دیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام آباد میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے مظاہرے کریں اور یہاں اپنے لوگوں کے حقوق دینے سے انکار کر کے ان پرلاٹھی چارج اور اور گرفتاریاں کریں۔ یہ ظلم ہے۔‘‘

وفاقی وزیر امیر مقام کا احتجاجی کیمپ کا دورہ

 بہ ظاہر پاکستان میں وفاقی حکومت سمیت پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا بھی بلدیاتی اداروں کے ساتھ یہی سلوک دیکھا گیا ہے۔ وفاق میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں بھی بلدیاتی نمائندے اختیارات ختم کیے جانے اور فنڈز روکنے کا شکوہ کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں بلدیاتی نمائندوں کی بجائے ترقیاتی فنڈز حکمران جماعت کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ہاتھوں خرچ کیے جاتے ہیں۔

بلدیاتی نمائندوں کا پشاور کے جی ٹی روڈ پر واقع جناح پارک میں کیمپ کا دورہ کرنے والے وفاقی وزیر امیر مقام کا کہنا تھا، ''یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی پرقبضہ نہیں کرنا بلکہ یہ اپنےآئینی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم ان کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

پولنگ اسٹیشنوں کے اندر سے ویڈیوکوریج کی اجازت نہیں

عوامی نیشنل پارٹی کے وفد کا موقف

احتجاجی کیمپ میں موجود عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''تین سال سے بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز نہیں ملے۔ ان کا احتجاج پُرامن ہے لیکن ان پر صوبائی حکومت کی ایما پر تشدد کیا گیا۔ ’’ہم ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘

بلدیاتی نمائندوں کا صوبائی حکومت سے پانچویں بار مذاکرات

صوبائی حکومت نے لوکل کونسل کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی ہے۔ چھ ارکان پر مشتمل کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیرمالیات ہوں گے جبکہ بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے کونسل کے صدر حمایت اللہ مایار سمیت پانچ دیگر ممبران ہوں گے۔ مذاکراتی کمیٹی نے 20 دن میں تین میں سے دو مطالبات پورا کرنے کا اعلان کیا۔ اسی تناظر میں بلدیاتی اداروں کے منتخب افراد نے احتجاج موخر کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر 20 دن میں مطالبات پورا نہ ہوئے تو پھر سے احتجاج کیا جائے گا۔