1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیافغانستان

پکتیکا فضائی حملہ بین الاقوامی قانون کے منافی، اقوام متحدہ

27 دسمبر 2024

اقوام متحدہ نے افغانستان کے پکتیکا میں پاکستانی فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔ اس کے مطابق یہ حملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ان کی چھان بین کا مطالبہ کیا۔

https://p.dw.com/p/4obix
افغان طالبان فورسز کا ایک سپاہی پاک۔افغان سرحد کے قریب پہرہ دے رہا ہے
افغان طالبان فورسز کا ایک سپاہی پاک۔افغان سرحد کے قریب پہرہ دے رہا ہےتصویر: Shafiullah Kakar/AP Photo/picture alliance

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ اسے جمعرات کو یہ مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ رواں ہفتے افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں پاکستان کے فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں عام شہری مارے گئے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ منگل کے فضائی حملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھے اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

پکتیکا فضائی حملہ: پاک افغان تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ

یو این اے ایم اے نے ایک بیان میں کہا، "بین الاقوامی قانون فوجی دستوں کو شہریوں کو نقصان سے بچنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا پابند کرتا ہے۔" اس نے مزید کہا کہ "احتساب کو یقینی بنانے کے لیے تحقیقات کی ضرورت ہے"۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے (یونیسیف) نے کہا کہ کم از کم 20 بچے حملے میں مارے گئے۔

طالبان کی حکومت کا کہنا ہے کہ مرنے والے 46 لوگوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، دیگر چھ زخمی ہیں، جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔

افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر پاکستان کے فضائی حملے

پاکستان کے ایک سکیورٹی اہلکار نے اےایف پی کو بتایا کہ "بمباری میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، اور کم از کم 20 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دعوے کہ شہریوں کو نقصان پہنچا تھا ، بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔"

اے ایف پی کے ایک صحافی نے صوبائی دارالحکومت سہران میں ایک ہسپتال کا دورہ کیا، جہاں متعدد بچے زیر علاج تھے
اے ایف پی کے ایک صحافی نے صوبائی دارالحکومت سہران میں ایک ہسپتال کا دورہ کیا، جہاں متعدد بچے زیر علاج تھےتصویر: AFP/Getty Images

اے ایف پی کے صحافی نے کیا دیکھا؟

طالبان حکام نے ص‍حافیوں کو جائے وقوعہ کا دورہ کرایا۔ اے ایف پی کے ایک صحافی نے صوبائی دارالحکومت سہران میں ایک ہسپتال کا بھی دورہ کیا، جہاں متعدد بچے زیر علاج تھے۔

اے ایف پی کے صحافیوں نے پاکستان کی سرحد سے تقریباً 20-30 کلومیٹر کے فاصلے پر تین جگہوں پر کچے اینٹوں کی چار عمارتیں دیکھیں جو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔

 اے ایف پی نے متعدد رہائشیوں سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ دیہات میں شام کے وقت ہونے والے حملے میں مکانات کے دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور ایک مدرسہ بھی تباہ ہو گیا۔

پاکستانی طالبان کا فوجی چيک پوسٹ پر حملہ، سولہ فوجی ہلاک

 متعدد رہائشیوں نے نشانہ بنائے گئے مکانات پر حملوں کے بعد ملبے سے لاشیں نکالنے کی اطلاع دی، جس میں ایک ہی خاندان کے متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

افغانستان کے سرحدی اور قبائلی امور کے وزیر نور اللہ نوری نے اس حملے کو ایک وحشیانہ، متکبرانہ حملہ قرار دیا۔ انہوں نے جائے واقعہ کے دورے کے دوران صحافیوں سے کہا، "یہ ناقابل قبول ہے اور اس کا جواب دیا جائے گا۔"

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان زہرہ بلوچ
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ گفت وشنید کو اولیت دی ہے تصویر: Muhammet Nazim Tasci/Anadolu/picture alliance

پاکستان کا ردعمل

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے حملوں کی تصدیق نہیں کی لیکن جمعرات کو ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا، "ہمارے سکیورٹی کے عملے پاکستانیوں کو ٹی ٹی پی سمیت، دہشت گرد گروپس سے محفوظ رکھنے کے لیے سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔"

زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ گفت وشنید کو اولیت دی ہے اور یہ کہ اسلام آباد کے خصوصی سفیر، صادق خان عہدے داروں سے ملاقات کےلیے کابل میں تھے، جہاں سکیورٹی کے امور اور ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد گروپس کے بارے میں گفتگو ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ "پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور ہم دہشت گردی کے خطرے سے مقابلے کے لیے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ ڈائیلاگ اور باہمی اشتراک کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف حملوں میں استعمال ہونے سے روکے گا۔"

 ٹی ٹی پی نے گزشتہ ہفتے افغانستان کی سرحد کے قریب ایک فوجی چوکی پر حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں پاکستان کے مطابق اس کے 16 فوجی مارے گئے تھے۔

پکتیکا پر فضائی حملے افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر دشمنی میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

 اسلام آباد کابل کے حکام پر عسکریت پسند جنگجوؤں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے لیکن کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

کیا تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟

ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)