کابل بینک سے رقوم نکلوانے والوں پر پولیس کا لاٹھی چارج
8 ستمبر 2010متاثرین کے مطابق اعلان کیا گیا تھا کہ کابل بینک کی تمام برانچیں کُھلی رہیں گی مگر دارالحکومت کابل میں اس بینک کی محض ایک برانچ ہی کھلی تھی جس کے باہر کھاتہ داروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ بینک کے بحران کی خبروں کے علاوہ پیسے نکلوانے کے معاملے میں افراتفری کی ایک اور وجہ تین دن بعد متوقع عید کا تہوار بھی ہے۔
افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ نامی ادارے کے اہلکاروں نے غم وغصے سے بھرے قریب 200 کھاتہ داروں کو قابو میں رکھنے کے لئے باقاعدہ لاٹھی چارج اور بعض افراد پر تشدد کیا۔
کابل بینک کو درپیش بحران اس وقت سامنے آیا جب اس بینک کے دو اعلیٰ ترین ڈائریکٹرز میڈیا کی طرف سے لگائے جانے والے بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنے عہدوں سے علیحدہ ہوگئے۔ تاہم یہ الزامات ابھی تک ثابت نہیں ہوسکے۔
افغانستان کے مرکزی بینک کی طرف سے پیر کے روز کابل بینک کے سابق چیئرمین شیر خان فرنُود اور چیف ایگزیکٹیو افسر خلیل اللہ فروزی سمیت اس بینک کے کئی دیگر حصہ داروں اور بڑے قرض حاصل کرنے والے کئی کھاتے داروں کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
اس بینک کے باہر قطار میں کھڑے افغان ایئرفورس کے ایک اہلکار کے مطابق: "یہ عید کا موقع ہے اور مجھے اپنے خاندان کے لئے کپڑے، خوراک اور دیگر لوازمات خریدنا ہیں۔ بینک انتظامیہ کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس کی تمام برانچیں کھُلی رہیں گی، یہ جھوٹ تھا اور میں اس پر سخت غصے میں ہوں۔"
بینک کے ایک اور کھاتہ دار عبدالرحیم نے جو کہ ایک سرکاری ادارے میں باورچی ہیں، اس بینک بحران کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کھاتے داروں کی بات نہیں سنی گئی تو ہم کابل بینک کی تمام کھڑکیاں توڑ کر، تمام برانچوں کو لُوٹ لیں گے اور صرف یہی نہیں بلکہ صدارتی محل کو بھی لوٹ لیا جائے گا۔
کابل بینک کے کھاتوں میں افغان سرکاری اداروں کے ڈھائی لاکھ اہلکاروں کے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ افغان سکیورٹی فورسز کی تنخواہیں بھی اسی بینک کے ذریعے ادا کی جاتی ہیں۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : کِشورمُصطفیٰ