طالبانی قبضے کے بعد مزید افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی ہے
18 دسمبر 2024پاکستان میں پہلے سے ہی لاکھوں افغان باشندے موجود تھے اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے گزشتہ تین برسوں کے دوران مزید افغان پاکستان پہنچے ہیں۔ نئے آنے والوں کے پاس روزگار کی شدید کمی ہے اور انہیں شدید خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں پہلے سے موجود بیشتر افغان تجارت کرتے ہیں، تاہم زندگی کی بہت سی سہولیات سے وہ محروم بھی ہیں۔ بعض 40 سال تک رہنے کے بعد پاکستانی شہریت کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریبا پندرہ لاکھ ایسے افغان رہائش پذیر ہیں، جنہیں پروف آف رجسٹریشن کارڈ دیا گیا ہے۔ تاہم تقریبا اتنی ہی تعداد میں افغان بغیر دستاویزات کے پاکستان میں مقیم ہیں، جن میں زیادہ تر خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں قیام پذیر ہیں۔
پاکستان:رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے قیام میں ایک سال کی توسیع
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے چھ سے آٹھ لاکھ افغانوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت کر کے پاکستان میں پناہ لی ہے۔ دوسری جانب اکتوبر 2023 میں پاکستان نے سکیورٹی خدشات کے باعث غیر قانونی افغان باشندوں کو واپس اپنے ملک بھیجنا شروع کیا تھا، جس کے تحت 31 اکتوبر 2024 تک چار لاکھ 35 ہزار سے زیادہ افغانوں کو اپنے ملک بھیجا گیا۔
بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستان نے یہاں موجود رجسٹرڈ افغان باشندوں کے پی او آر کارڈ میں جون 2025 تک توسیع کی تھی، جو 30جون 2024کوختم ہو رہی تھی۔ اس طرح رجسٹرڈ افغانوں کی یہ مشکل کسی حد تک آسان ہو گئی۔ تاہم خیبر پختونخوا کے علاوہ دیگر شہروں میں رہائش پذیرافغان باشندوں کی مشکلات میں کمی نہیں آئی، جہاں انہیں بعض سیکورٹی اداروں کی وجہ سے پریشانی ہے تو وہیں انہیں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات نہ ہو ہونے کے برابر ہیں۔
مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ کا دورہ پاکستان اور مہاجرین سے ملاقات
افغان ان مشکلات کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
خیبر پختونخوا میں کیمپوں میں رہائش پذیر افغانوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ کیمپ میں مقیم افراد کے حوالے سے جب افغان خواتین کی تعلیم کے لیے لئے سرگرم اللہ میر میاں خیل سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، "کیمپوں میں صورتحال انتہائی ابتر ہے یہاں کچرا اٹھانے والے نہیں آتے گندگی کے ڈھیر میں لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر سرکاری ادارے اگر "ہمیں کچھ دیتے ہیں تو وہ گرمی میں ہیٹر اور سردی میں پنکھا دیتے ہیں۔ وہ ہمیں کیمرے دیتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں بلکہ ہمیں اس کی جگہ صحت، تعلیم اور صاف ماحول کی ضرورت ہے۔ پانی کی فراہمی بنیادی مسئلہ ہے جو ہمارے ليے دستیاب ہی نہیں ہے۔"
ایک افغان مہاجر کی پاکستان میں چالیس سالہ جدوجہد کی کہانی
افغانوں کو زبردستی نکالنے پر فلاحی اداروں کا موقف
پاکستان کے افغانوں کو نکالنے اور زبردستی واپس اپنے ملک بھیجنے کے بارے میں سیاسی اور سماجی کارکنوں کا کہنا تھا کہ یہ انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے اگر کسی کو اپنے ہی ملک میں جان کا خطرہ ہے، یا انہیں معاشی مشکلات کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑ رہا ہے تو پاکستانی حکام کو ان کے لئے ایک پالیسی وضع کرنی چاہیے۔
معروف قانون دان جمال آفریدی سے جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، "کوئی اپنی خوشی سے اپنا ملک نہیں چھوڑتا ان کی مجبوریاں ہوتی ہیں اور انہی مجبوریوں کے تحت ان لوگوں نے اپنا ملک چھوڑا ہے۔ انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں وہ سہولیات فراہم کی جائیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔"
پاکستان میں مریضوں کے لیے ویزا فری انٹری، افغان باشندے خوش
پاکستان میں تجارت
افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد صوبہ پختونخوا کے مختلف شہروں میں تجارت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ زیادہ تر افغان ڈرائی فروٹ، نوادرات، کپڑے ،کاسمیٹکس، اور کارپیٹ کی تجارت کرتے ہیں۔
پشاور صدر میں ڈرائی فروٹ کے کاروبار کرنے والے حسیب اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا "40 برس قبل یہاں آئے تھے۔ بچے یہیں پیدا اور جوان ہوئے اور انہوں نے یہاں تعلیم حاصل کی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہیں افغان ہونے کی وجہ سے یہاں نوکری نہیں مل سکتی، اس لئے وہ کاروبار میں میرا ساتھ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم پاکستان میں تمام بالواسطہ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں پاکستانی شہریت دی جائے، کیونکہ اب اگر میں افغانستان واپس جانا بھی چاہوں، تو میرے بچے پاکستان کو ہی اپنا ملک کہتے ہیں۔ میرا یہاں لاکھوں کا کاروبار ہے، اسے ختم کر کے افغانستان جا کر وہاں کیا کروں گا۔"
پاکستان:غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف پولیس ایکشن شروع
پریشانیاں کیا ہیں؟
پاکستان میں افغان باشندوں کو متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔ حال ہی میں افغان باشندوں کو گھر لینے کے لیے این او سی لینے کا پابند کیا گیا ہے۔
پشاور میں رہائش پذیر غیر ملکی ادارے کے لیے کام کرنے والی مسکا صافی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ہم غیر ملکیوں کو کسی قسم کی سہولت میسر نہیں ہے۔ 40 سال یہاں گزارنے والے افغانوں کی زندگی نہیں بدلی اس کے برعکس یورپ اور امریکہ میں دس سال کے بعد انہیں وہاں کی سہولیات میئسر ہو جاتی ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ 40 سال قبل آئے تھے انہوں نے اپنے لئے کیمپ میں چار کمرے بنائے لیکن آج ان کا خاندان 40 لوگوں پر مشتمل ہے، تاہم انہیں ایک اور کمرہ بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
مسکا صافی نے مزید بتایا کہ پاکستان میں افغان باشندوں کو تعلیم کے دوران وظائف تو دئیے جاتے ہیں لیکن اگر وہ اعلیٰ پوزیشن سے کامیابی حاصل کریں، تب بھی انہیں کہیں ملازمت نہیں ملتی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان جانے والوں کی مشکلات اس سے بھی بڑھ کر ہیں وہاں بھی سہولیات کا فقدان ہے اور جن لوگوں کے بچے یہاں جوان ہوئے، وہ وہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے اور یہاں کاروبار کرنے والے اب وہاں کاروبار بھی نہیں کر سکتے۔ یوں افغان دوہری مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان افغان پناہ گزینوں کے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، امریکہ
اقوام متحدہ کی جانب سے رضاکارانہ واپسی
سال 2002 سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کے تحت 4۔45 ملین افغانوں کو واپس بھیجا گیا ہے۔ اس دوران انہیں یو این ایچ سی آر کی جانب سے 375 ڈالر فراہم کیے جاتے تھے۔
سردیوں کی وجہ سے چند ماہ کے لیے رضاکارانہ واپسی کا سلسلہ روک دیا گیا، جبکہ یکم جنوری سے 31 اکتوبر 2024 تک اسی پروگرام کے تحت تقریبا 24 ہزار افغان واپس اپنے ملک چلے گئے۔