’حملہ آور انتہا پسندی کی طرف راغب ہو چکے تھے‘
4 دسمبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے جمعرات کے دن بتایا ہے کہ مسلمان شادی شدہ جوڑا ممکنہ طور پر نہ صرف ’ریڈیکلائزڈ‘ ہو چکا تھا بلکہ یہ امکان بھی ہے کہ اس کے مشتبہ دہشت گردوں سے روابط بھی تھے۔ امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے بدھ کے دن سان برنارڈینو میں رونما ہونے والی اس خونریز واردات کی تحقیقات کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔
ایف بی آئی نے کہا ہے کہ اس واقعے کو دہشت گردی قرار دینا ابھی قبل ازوقت ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروائی کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا رہی ہے اور سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکا میں پیدا ہونے والے اٹھائیس سالہ سید فاروق اور اس کی ستائیس سالہ اہلیہ تاشفین ملک نے یہ حملہ کیوں کیا ہے۔ تاشفین ملک کا تعلق پاکستان سے تھا تاہم وہ شادی سے قبل سعودی عرب میں رہتی تھی۔ اس جوڑے کی طرف سے کی گئی خونریز کارروائی میں چودہ افراد ہلاک جبکہ اکیس زخمی ہو گئے تھے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ اہلکاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تفتیشی عمل میں اس کارروائی کو ممکنہ طور پر ایک دہشت گردانہ کارروائی کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم اس کے حقیقی محرکات کیا تھے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی کہا ہے کہ جب تک اصل حقائق معلوم نہیں ہو جاتے، تب تک کوئی مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ تفتیشی ٹیمیں حقائق تک ضرور پہنچ جائیں گی۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ سید فاروق گزشتہ برس سعودی عرب میں شادی کرنے کے بعد انتہا پسندی کی طرف راغب ہوا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے بیرون ممالک فعال مشتبہ دہشت گردوں سے تعلقات بھی استوار کر لیے تھے۔ تاہم ایک مقامی مسجد، جہاں فاروق جایا کرتا تھا، کے امام نے کہا ہے کہ اس نے فاروق میں شدت پسندی کا کوئی عنصر نہیں دیکھا تھا۔
نیو یارک ٹائمز نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس جوڑے کے فون، کمپیوٹرز اور دیگر سامان کا تجزیہ کرنے کے بعد ایف بی آئی کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ فاروق نے کچھ سال قبل امریکا اور بیرون ممالک میں انتہا پسندوں سے رابطے کیے تھے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس خونریز کارروائی سے قبل یہ دونوں حملہ آور امریکی خفیہ اداروں کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
امریکی حکام کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی انتہائی منظم طریقے سے کی گئی تھی، جس سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ایک دہشت گردانہ کارروائی ہو سکتی ہے۔ لاس اینجلس آفس میں ایف بی آئی کے نائب ڈائریکٹر ڈیوڈ باؤڈچ کے بقول، ’’یقینی طور پر یہ کارروائی ایک مشن کے طور پر کی گئی ہے۔‘‘
دوسری طرف امریکا میں آباد مسلمان کمیونٹی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ تشدد کے اس تازہ واقعے میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کے نتیجے میں انہیں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکا میں امتیازی سلوک کے خلاف فعال ایک عرب تنظیم کے سربراہ عبدل ایوب نے کہا ہے کہ گو کہ ابھی تک کوئی جوابی کارروائی نہیں دیکھی گئی ہے لیکن مسلم کمیونٹی کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ امریکا میں مسلم رہنماؤں نے بھی سان برنارڈینو کے حملے کی سخت مذمت کی ہے۔