یورپی ممالک کو امریکی دباؤ سے باہر نکلنا ہو گا، ایوو مورالیس
4 جولائی 2013بولیویا کی حکومت کے بقول فرانس، اٹلی، اسپین اور پرتگال نے صدر ایوو مورالیس کے جہاز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کو شک تھا کہ جہاز پر سرکاری راز افشا کرنے کے سلسلے میں امریکی حکومت کو مطلوب ایڈورڈ سنوڈن موجود ہے۔ مورالیس اس رویے پر شدید نالاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف صدر کی تذلیل نہیں ہے بلکہ لاطنیی امریکا کے پورے خطے کی توہین کی گئی ہے۔
مورالیس نے فرانس، اسپین، پرتگال اور اٹلی کی حکومتوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دی ہے: ’’ان چاروں ممالک کو دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ مجھے کیوں حراست میں رکھا گیا‘‘۔ مورالیس کے بقول یورپی ممالک کو خود کو امریکا کے دباؤ سے باہر نکالنا ہو گا۔
گزشتہ روز ویانا میں مورالیس کے طیارے کو روس سے واپسی پر زبردستی اتار لیا گیا تھا۔ اس تصدیق کے بعد کہ سنوڈن طیارے پر موجود نہیں ہے ایوو مورالیس کو سفر جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ مورالیس روس کے دورے سے واپس جا رہے تھے۔ روس میں انہوں نے ایڈورڈ سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی بات کی تھی۔
امریکا نے صدر مورالیس کے جہاز کو روکے جانے کے واقعے پر براہ راست کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس نے صرف اتنا کہا کہ تمام لوگ سنوڈن کے بارے میں امریکی موقف جانتے ہیں۔ دوسری جانب میڈرڈ میں ارجنٹائن، برازیل، ایکواڈور،کیوبا، نکاراگوا، پیرو، وینزویلا اور کولمبیا نے ایک مشترکہ قرارداد میں یورپی حکومتوں کے اس رویے کو جارحیت سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ یہ رویہ صدر مورالیس کی جان کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔ روس نے بھی یورپی ممالک کی جانب سے اس طرز عمل کی شدید مذمت کی ہے۔
گزشتہ روز رات دیر گئے فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیوس نے فضائی حدود کی اجازت دینے میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بولیویا کے اپنے ہم منصب ڈاوڈ چوکےووآنکا سے فون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ یقینی طور پر ہمارا ارادہ یہ نہیں تھا کہ صدر مورالیس کے جہاز کو فضائی حدود سے نہ گزرنے دیا جائے‘‘۔
بولیویا کے وزیر خارجہ ڈاوڈ چوکےووآنکا نے وینزویلا کے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے ایڈورڈ سنوڈن کو ملک بدر کرنے کی درخواست کی ہے: ’’امریکا نے ہمیں لکھا ہے کہ اگر ایڈورڈ سنوڈن بولیویا کی سرزمین پر قدم رکھے تو اسے بے دخل کر دیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کو شک تھا کہ سنوڈن صدر مورالیس کے ساتھ جہاز میں موجود تھا اور یورپی ممالک نے اس کے مطابق ہی عمل کیا‘‘۔