یوکرائن کا بحران، میرکل اور پوٹن کا رابطہ
3 مارچ 2014جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کی رات روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو میں یوکرائن میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر سیر حاصل بات چیت کی۔ یہ گفتگو ایسے وقت میں ہوئی جب یوکرائن کے علاقے کریمیا میں روسی افواج کی تعیناتی کی خبروں کے بعد مغربی ممالک نے ماسکو حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ روس کی طرف سے اس ’جارحیت‘ کے بعد جی ایٹ گروپ میں اس کی رکنیت ختم کر دینا چاہیے۔ تاہم جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ اشٹائن مائر کے بقول جی ایٹ ایک ایسا فورم ہے، جہاں مغربی ممالک روس کے ساتھ متعدد موضوعات پر براہ راست بات چیت کر سکتے ہیں۔
جرمن چانسلر کے نائب ترجمان گے اورگ اشٹرائٹر نے بتایا ہے کہ انگیلا میرکل نے پوٹن کو فون کر کے زور دیا ہے کہ ماسکو یوکرائن کی سرحدی خود مختاری کا احترام کرے۔ چانسلر میرکل کے ساتھ گفتگو میں صدر پوٹن نے کہا کہ کریمیا میں روسی آبادی اور روسی زبان بولنے والے افراد کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔ تاہم انہوں نے اتفاق کیا کہ وہ اس کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سفارتی بحران کے حل کی کوشش کریں گے۔
برلن حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر پوٹن نے چانسلر میرکل کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ماسکو حکومت ایک انکوائری کمیشن ترتیب دے گا اور ایک ایسا رابطہ گروپ بھی بنایا جائے گا جو کییف حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس سیاسی مکالمت کا آغاز ’سلامتی و تعاون کی یورپی تنظیم‘ (او ایس سی یو) کے تحت ہو گا۔ چانسلر انگیلا میرکل نے البتہ اس مکالماتی عمل کے بارے میں زیادہ تفصیلات عام نہیں کی ہیں۔ روئٹرز نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ پوٹن اور میرکل کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے بھی جرمن چانسلر سے رابطہ کرتے ہوئے یوکرائن کی تازہ ترین صورتحال پرتبادلہ خیال کیا ہے۔
کریمیا میں مزید روسی فوجیوں کی تعیناتی کی خبروں کے بعد اتوار کے دن مغربی رہنماؤں نے روس کو خبردار کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ صدر پوٹن کو یوکرائن میں جمہوری عمل کا احترام کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو کو اس بحران کے حل کے لیے کوشش کرنا چاہیے ورنہ اسے جی ایٹ گروپ کی رکنیت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ممکنہ تجارتی پابندیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تاہم انہوں نے فوجی مداخلت کی کوئی دھمکی نہیں دی۔ کیری کے بقول وہ اس بحران کا پر امن حل چاہتے ہیں۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے بھی یوکرائن کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ماسکو حکومت پر زور دیا کہ وہ یوکرائن سے اپنے فوجی واپس بلا لے۔ اٹھائیس رکن ممالک پر مشتمل اس عسکری اتحاد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یوکرائن نیٹو کا ایک اہم رکن ملک ہے اور کسی تنازعے کی صورت میں اس کا ساتھ دیا جائے گا۔ راسموسن کے بقول روس کی طرف سے یوکرائن میں فوجی تعینات کرنے کے نتیجے میں خطے کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں یوکرائن کے عبوری وزیر اعظم آرسینی یاٹسینی یُک نے کہا ہے کہ روس دو ممالک کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ اسی دوران کییف حکومت نے منحرف ہونے والے نیوی کے نو منتخب سربراہ ریر ایڈمرل Denys Berezovsky کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اتوار کو ہی اعلان کیا کہ وہ کریمیا کے روس نواز رہنماؤں کی حمایت کرتے ہیں اور یوکرائن کی فورسز کو ہتھیار پھینک دینے چاہییں۔