پوپ بینیڈکٹ کو اپنے آبائی وطن میں مخالفت کا سامنا
21 ستمبر 2011جرمنی میں مذہب نازک صورتحال سے دوچار ہے اور امکان ہے کہ پوپ کے قدامت پسند خیالات کو نشانہ بنانے والوں میں سیاست دانوں کے علاوہ نہ صرف مخالف فرقے پروٹسٹنٹ کے پیروکار شامل ہوں گے بلکہ انہیں اپنے فرقے کیتھولک کے ہاتھوں بھی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ سال جنسی زیادتیوں کے اسکینڈل منظر عام پر آنے اور کئی معاملات میں انتہائی قدامت پسند مؤقف رکھنے کے بعد ایک لاکھ 81 ہزار افراد کی ریکارڈ تعداد نے کیتھولک چرچ کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ جن لوگوں نے ابھی تک اس فرقے سے تعلق برقرار رکھا ہے ان کی بڑی تعداد کا کہنا ہے چرچ کو اپنے تجرد کے اصول میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ پادریوں کی گھٹتی ہوئی تعداد کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ پروٹسنٹ اور کیتھولک فرقے کے پیروکاروں کی آپس کی شادیوں کو بھی رواج دینے کی ضرورت ہے۔
ایک کیتھولک مذہبی عالم ہرمن ہائرنگ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ پوپ بینیڈکٹ پر اپنے آبائی وطن میں ہی اتنی تنقید پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ جرمن ہیں۔ ان کی حمایت اور مخالفت میں جذبات ہمیشہ سے کافی زیادہ رہے ہیں۔‘‘
چرچ میں اصلاحات کے مطالبات
دارالحکومت برلن میں پوپ سے ملاقات کرنے والے بعض سینئر سیاستدان اس خلیج کی علامت ہیں جو اُن کے طرز زندگی اور پوپ کی تعلیمات کے درمیان حائل ہے۔ صدر کرسٹیان وولف کیتھولک مسیحی ہیں جنہوں نے ایک بار طلاق کے بعد دوبارہ شادی کی ہے۔ برلن کے میئر کلاز ووویرائٹ کیتھولک ہونے کے باوجود برملا ہم جنس پرست ہیں۔ کیتھولک چرچ کے نزدیک دونوں طرز زندگی گناہ آلود ہیں۔
جرمن پارلیمان بنڈسٹاگ کے اسپیکر نوربرٹ لیمرٹ نے جنوری میں سات دیگر سیاستدانوں کے ہمراہ پوپ بینیڈکٹ پر زور دیا تھا کہ وہ شادی شدہ افراد کو مذہبی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اجازت دیں، تاہم پوپ نے مذہبی طبقے کے لیے چرچ کے صدیوں پرانے اصولوں کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سن 2009ء میں پوپ نے دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتل عام یا ہالوکاسٹ کا انکار کرنے والے ایک بشپ کو چرچ میں دوبارہ داخل ہونے کی اجازت دی تھی جس پر چانسلر انگیلا میرکل نے ان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ ویٹی کن یہودیوں کا مخالف نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے میرکل نے کہا تھا کہ پوپ کے دورے کا بنیادی محور مختلف مسیحی فرقوں کے درمیان اخوت ہونی چاہیے۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے درمیان بھی امن کو فروغ دینے پر زور دیا تاکہ سن 2006ء کے اس واقعے کا اعادہ نہ ہو سکے جس میں پوپ کی روزن برگ میں اس تقریر پر مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا تھا جس میں انہوں نے اسلام کو ایک متشدد اور دلائل سے محروم مذہب قرار دیا تھا۔
برٹلسمین فاؤنڈیشن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق محض 37 فیصد کیتھولک اور 14 فیصد پروٹسٹنٹ مسیحی پوپ کے دورے کو اہم سمجھتے ہیں۔ لگ بھگ تین چوتھائی کیتھولک باشندے چرچ کو آزاد خیال دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ پوپ سے یہ بھی توقعات ہیں کہ وہ طلاق کے بعد دوبارہ شادی کرنے والے کیتھولک باشندوں کو مذہبی تقریبات میں شرکت کی اجازت دیں۔ اصلاحات کے دیگر مطالبات میں پادریوں کے لیے لازمی تجرد کی زندگی گزارنے کی پابندی ختم کرنے، خواتین کو پادری بننے کی اجازت دینے اور بزرگ افراد کو مذہبی تعلیمات کی اجازت دینا شامل ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: افسر اعوان