برلن میں حکمراں اتحاد کی جماعت کو عوام نے مسترد کر دیا
19 ستمبر 2011اس نتیجے کے بعد اب برلن جرمنی کی سولہ وفاقی اکائیوں میں سے وہ پانچویں ریاست بن گئی ہے جہاں کی مقامی اسمبلی میں اب ایف ڈی پی نمائندگی سے محروم ہوگئی ہے۔ اتوار کو ڈالے گئے ووٹوں کے ابتدائی نتائج کے مطابق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس ڈی پی سے تعلق رکھنے والے میئر کلاؤز وویرائٹ کو مسلسل تیسری مدت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔
ایس ڈی پی کو 2006ء کے مقامی انتخابات میں قریب 31 فیصد ووٹ ملے تھے اور حالیہ انتخابات میں انہیں قریب 29 فیصد ووٹ ملے۔ وویرائٹ کا کہنا ہے کہ وہ گرین پارٹی کے ساتھ اشتراک کر سکتے ہیں، جسے 17 اعشاریہ چھ فیصد ووٹ ملے۔ اگرچہ چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو کو ان انتخابات میں 23.4 فیصد کے تناسب سے خاطر خواہ ووٹ ملے تاہم ایف ڈی پی کی شکست کو مجموعی طور پر حکمراں اتحاد کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردعمل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ سی ڈی یو کے پارلیمانی لیڈر پیٹر الٹمایر نے برلن کے مقامی انتخابات کے نتائج کو اپنی جماعت اور چانسلر میرکل کے لیے حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔
یہ امکان موجود ہے کہ برلن کی مقامی حکومت کے لیے ایس ڈی پی اور سی ڈی یو میں اتحاد ہوجائے۔ایف ڈی پی اپنی عوامی مقبولیت میں کمی کے پیش نظر غیر مقبول وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کی جگہ پہلے ہی وزیر اقتصادیات فیلپ رویسلر کو پارٹی سربراہ منتخب کر چکی ہے۔ رویسلر پارٹی ساکھ کو بحال کرنے کی خاطر یورو زون میں بیل آؤٹ پیکجز پر سخت گیر مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایف ڈی پی کے سیکریٹری جنرل کرسٹیان لنڈنیر کے بقول، ’’برلن میں یہ ڈرامائی شکست جماعت کے زوال کا نشان اور جاگ اٹھنے کی صدا ہے۔‘‘
مبصرین کے مطابق جرمن دارالحکومت برلن کے ووٹر قومی معاملات سے بڑھ کر مقامی معاملات کو زیادہ مدنظر رکھتے ہیں۔ قریب 25 لاکھ رائے دہندگان پر مشتمل یہ شہر ملک بھر میں بے روزگاری کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ اتحاد جرمنی کے 20 برس گزر جانے کے باوجود یہ شہر ریاستی قرضوں تلے ڈوبا ہوا ہے۔ یہاں ریاستی خزانے سے امداد وصول کرنے والوں کی تعداد دیگر شہروں کے مقابلے میں بہت زیادہ اور محصولات کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں اسکولوں میں جرائم کی سطح بھی خاصی بلند ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: حماد کیانی