بھارتی مسجد میں ہلاکت خیز بم دھماکا، پانچوں ہندو ملزمان بری
16 اپریل 2018بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے پیر سولہ اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ان ملزمان کا عدالتی دفاع کرنے والے وکلاء نے آج تصدیق کر دی کہ یہ پانچوں افراد عدالت کی طرف سے بری کر دیے گئے ہیں۔
بھارتی قوم پرستوں کا ’برتر بچے‘ بنانے کا دعوی
بھارت: ہندو قوم پرست تنظیم کی انٹرنیشنل افطار پارٹی
قریب گیارہ برس قبل 18 مئی 2007ء کے روز یہ بم دھماکا بھارتی شہر حیدر آباد شہر کی تاریخی مکہ مسجد میں کیا گیا تھا، اور اس حملے میں نو افراد کی ہلاکت کے علاوہ قریب 60 دیگر زخمی بھی ہو گئے تھے۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ان بری کر دیے گئے پانچ ملزمان میں سوامی اسیم آنند نامی ایک ہندو شہری بھی شامل ہے، جو راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس نامی اس ہندو قوم پسند تنظیم کا ایک رہنما ہے، جس کے ملکی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔
بھارتی سیاست میں بڑا موڑ: ہم جنس پرستی جرم نہیں، آر ایس ایس
ہندوقوم پرستوں نے نیکر تبدیل کر دیے
اس بارے میں ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حیدر آباد کی ایک عدالت نے کہا کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کا اعلیٰ ترین ادارہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ان ملزمان کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
ملزمان کے وکلاء صفائی میں سے ایک جے پی شرما نے صحافیوں کو بتایا، ’’عدالت نے کہا کہ استغاثہ ان ملزمان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کوئی الزام ثابت نہ کر سکا۔ اسی لیے ان تمام پانچوں ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا۔‘‘
بھارت میں سادھوؤں کے لیے وزیر مملکت کا درجہ
بھارت: سیاسی کشیدگی ہندو مسلم فساد میں تبدیل
اس موقع پر جے پی شرما نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ اس مقدمے میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی این آئی اے مبینہ طور پر حکومت کی طرف سے کسی بھی دباؤ میں آ گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’تمام اہم گواہوں سے عدالت میں جرح کی گئی اور ان میں سے کسی ایک کو بھی کوئی استثنیٰ نہیں دیا گیا تھا۔ اس لیے آپ یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کہ اس معاملے میں حکومت نے کوئی بھی مداخلت کی ہے۔‘‘
ڈی پی اے کے مطابق اس مقدمے کی اہم بات یہ ہے کہ 2011ء میں ایک مجسٹریٹ کے سامنے سوامی اسیم آنند نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اور آر ایس ایس کے دیگر سرگرم کارکن حیدر آباد کی مکہ مسجد سمیت مسلم عبادت گاہوں اور مزارات پر ان حملوں میں ملوث رہے تھے، جو دراصل ہندوؤں کے مندروں پر کیے جانے والے حملوں کے جواب میں کی گئی کارروائیاں تھیں۔‘‘
اس مقدمے میں دو ملزمان عدالتی کارروائی کے عرصے کے دوران ہی کہیں روپوش ہو گئے تھے جب کہ ایک تیسرے ملزم کا اس وقت انتقال ہو گیا تھا، جب اس مقدمے کی برسوں پر محیط بہت طویل عدالتی کارروائی ابھی جاری تھی۔
م م / ع س / ڈی پی اے