1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی بنگلہ دیشی قربت، جنوبی ایشیائی سیاست میں نیا موڑ

شازیہ محبوب
29 دسمبر 2024

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسلام آباد اور ڈھاکہ کے تعلقات میں نظر آنے والی نئی گرمجوشی اور قربت کئی تجزیہ کاروں کے مطابق جنوبی ایشیائی سیاست میں ایک نیا لیکن مثبت موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4oYSD
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور نوبل انعام یافتہ شخصیت محمد یونس، دائیں، قاہرہ میں اسی مہینے ہونے والے ڈی ایٹ سمٹ کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ اور نوبل انعام یافتہ شخصیت محمد یونس، دائیں، قاہرہ میں اسی مہینے ہونے والے ڈی ایٹ سمٹ کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہتصویر: Pakistan's Press Information Department/AFP

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی پاکستانی بنگلہ دیشی قربت خطے میں نئی سیاسی صف بندیوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے جبکہ علاقائی سطح پر بھارت کے سیاسی وزن کے مقابلے میں یہ دوطرفہ تعاون خطے میں ایک متوازن اور مربوط حکمت عملی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔

اسٹریٹیجک اہمیت

تجزیہ کار طلعت مسعود نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیوسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش تاریخی، سیاسی اور کئی دیگر حوالوں سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ کئی برسوں تک وہ ایک ہی ملک تھے۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی، تاہم دونوں ممالک کے عوام اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔

طلعت مسعود نے کہا، ''ماضی کے بہتر تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسی مشترکہ پالیسیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یہ تبدیلی دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی ایک مثبت پیش رفت ہے، جس سے انہیں کئی متنوع حوالوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘

بنگلہ دیش: بھارت سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ

محمد یونس کو اسی سال بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف کامیاب ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں بننے والی عبوری حکومت کا سربراہ بنایا گیا تھا
محمد یونس کو اسی سال بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف کامیاب ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں بننے والی عبوری حکومت کا سربراہ بنایا گیا تھاتصویر: Sean Gallup/Getty Images

بھارتی پالیسیوں کے خلاف اتحاد

بنگلہ دیشی دارالحکومت کی ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق ڈین، پروفیسر ڈاکٹر شاہد زمان کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو ہی بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قریبی باہمی تعلقات کو دوبارہ زندہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''موجودہ صورت حال 1947ء سے پہلے کے حالات کی یاد دلاتی ہے، جو دو قومی نظریے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کو بھارتی غلبے سے بچنے اور اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

بھارت: پاکستانی فوج کے 'ہتھیار ڈالنے' والی پینٹنگ پر تنازعہ کیا ہے؟

بنگلہ دیش میں اسی سال عوامی لیگ کے دور اقتدار کے خاتمے کے تناظر میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر محمد ندیم مرزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے شیخ حسینہ کے دور کے بعد کے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات میں بڑی احتیاط برتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بنگلہ دیش سے متعلق کسی بھی کم محتاط قدم سے بھارت یا وہاں پناہ لینے پر مجبور ہو جانے والی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچے۔

نریندر مودی اور شیخ حسینہ، دو وزرائے اعظم، ستمبر دو ہزار بائیس میں نئی دہلی میں لی گئی ایک تصویر
شیخ حسینہ کے دور میں ڈھاکہ اور نئی دہلی کے مابین تعلقات بہت گہرے اور قریبی تھےتصویر: Naveen Sharma/ZUMA/IMAGO

وسطی ایشیا کا دروازہ

بنگلہ دیش کی جہانگیر نگر یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شہاب انعام کے بقول بنگلہ دیش کو سکیورٹی یا فوجی تعاون کے بجائے اقتصادی شراکت داری کو ترجیح دینا چاہیے۔ اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر شہاب انعام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈھاکہ کو دراصل پاکستان کی وسطی ایشیا تک رسائی کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری کے ساتھ اس کی صف بندی میں شامل ہونا چاہیے۔

تنہا ہوتا ہوا بھارت

پروفیسر شاہد زمان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش علاقائی سطح پر تو خطے کے ممالک کی تنظیم سارک کی بحالی کی حمایت کرتا ہے تاہم وہ بھارت کی طرف سے ''سبوتاژ کی کوششوں‘‘ سے آگاہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے درمیان شپنگ لائنز کا قیام خطے کی بڑھتی ہوئی خود مختاری کی علامت ہے۔ مزید یہ کہ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ اور بیجنگ کے پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ تعلقات بھارت کو علاقائی سطح پر تنہا کرتے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد ندیم مرزا کے بقول بھارت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں اور پاکستان کے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑے دوستانہ ہیں۔

بنگلہ دیش میں الیکشن اگلے سال کے آخر تک ہو سکتے ہیں، یونس

نریندر مودی اور شیخ حسینہ، اس سال جون میں نئی دہلی میں لی گئی ایک تصویر
شیخ حسینہ نے اب بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ حکومت نے نئی دہلی سے حسینہ کی ملک بدری کا مطالبہ بھی کر رکھا ہےتصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

ماضی کی تلخیاں بھلانا ضروری

طلعت مسعود کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت پیدا ہونے والی تلخیاں بڑی گہری تھیں اور ان سے بے شمار لوگ متاثر ہوئے تھے۔ تاہم ان تلخیوں کا باقی رہنا دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے، ''کیونکہ یوں نہ تو ان ممالک کے عوام کو کوئی فائدہ ہو گا، نہ ہی ان کی حکومتوں کو، اور نہ ہی اس پورے خطے کو۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ موجودہ نسل ان تلخ واقعات کی ذمہ دار نہیں، ان تلخیوں کو یاد کرنا اب بے معنی ہے۔ دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنی اپنی سماجی اور معاشی حالت بہتر اور اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں۔

بنگلہ دیش: بھارت فرار ہونے کے بعد شیخ حسینہ کا پہلا عوامی خطاب

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد ندیم مرزا کہتے ہیں کہ تاریخ کسی بھی بڑے واقعے کے صرف کسی ایک فریق کے دعووں پر مبنی نہیں ہو سکتی اور اس کو مٹانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ''بنگلہ دیشی عوام کا ایک بڑا حصہ مانتا ہے کہ ماضی پر نظریں گاڑے رہنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ فی زمانہ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین کئی طرح کے مسائل ہیں۔‘‘

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی کشیدگی

فوجی صدر پرویز مشرف، تصویر، وہ پہلے پاکستانی حکمران تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا
فوجی صدر پرویز مشرف وہ پہلے پاکستانی حکمران تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھاتصویر: Lefteris Pitarakis/AP/picture alliance

علاقائی استحکام کے لیے تعاون

پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت خطے کے لیے کس طرح معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ شمسہ نواز کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور ڈھاکہ ایک دوسرے کے قدرتی شراکت دار ہیں، جنہوں نے پہلے برطانوی حکمرانی کے خلاف ایک قوم کے طور پر متحد ہو کر جدوجہد کی۔ پھر 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزاد ریاست وجود میں آئی تو پاکستان نے اس کی آزادی اور خود مختاری کو تسلیم کیا۔

کئی دہائیوں بعد پاکستان سے براہ راست کارگو جہاز بنگلہ دیش میں

شمسہ نواز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '’ان دونوں ممالک نے جنوبی ایشیا میں ترویج امن کے لیے سارک کے پلیٹ فارم سے بھی مل کر کام کیا ہے اور دونوں ہی اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن بھی ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو میں شمولیت کے بعد دونوں ہی اقتصادی تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس سے ان کی مجموعی حالت بہتر ہو گی۔‘‘

جہانگیر نگر یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شہاب انعام یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو ماضی کی کڑواہٹ بھلا کر اقتصادی تعاون اور مشترکہ مفادات کو ترجیح دینا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا، ''1971ء کے واقعات کو سیاسی بوجھ کے طور پر نہیں بلکہ تعمیری انداز میں تسلیم کرنا دونوں ہی کے لیے صحت مند تعلقات کی بنیاد مہیا کرے گا۔ اقتصادی شراکت داری سے اسلام آباد اور ڈھاکہ کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں، جو باہمی احترام کو بھی فروغ دیں گے اور خطے پر مثبت اثرات کی وجہ بھی بنیں گے۔‘‘

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا