کوڑے کے ذرات کے باعث ’بحیرہء روم خطرے میں‘
16 جولائی 2012ایک اندازے کے مطابق ان ذرات کی تعداد تقریباً 290 ارب ہے۔ ماہ رواں کے اواخر میں اپنے سفر پر روانہ ہونے والے فرانسیسی سائنسدان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ انتہائی ننھے منے ذرات کہاں کہاں ہیں، یہ کس انداز میں پانی میں آگے کی جانب حرکت کرتے ہیں اور ان کی شکل و صورت میں کیونکر اور کس نوعیت کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں؟
اس ٹیم کو بہت سے رضاکاروں کی بھی مدد حاصل ہے اور یہ باقاعدگی کے ساتھ پانی کے نمونے حاصل کرے گی۔ اس ٹیم کے سربراہ برونو دومونتے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس جانچ پڑتال کی مدد سے مثلاً یہ پتہ چلایا جا سکے گا کہ فی مربع میٹر جگہ میں پائے جانے والے ذرات کی مقدار کتنی ہے۔ بعد ازاں مواصلاتی سیاروں سے اتاری گئی تصاویر کو جانچتے ہوئے سائنسدان پتہ چلا سکیں گے کہ سمندری موجیں کس طرح سے حرکت کرتی ہیں اور کوڑے کرکٹ کے یہ ذرات، جو زیادہ تر پلاسٹک کے ہوتے ہیں، کیسے سمندر میں آگے بڑھتے ہیں اور مختلف سمتوں میں پھیلتے ہیں۔
2010ء اور 2011ء میں اسی طرح کی سرگرمیوں کے نتیجے میں سائنسدانوں کو پتہ چلا تھا کہ بحیرہء روم میں کوڑے کرکٹ کے ذرات کا ملغوبہ بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کے مقابلے میں کہیں زیادہ گاڑھا ہے۔ اپنے تازہ مشن کے ذریعے یہ محققین بحیرہء روم میں کوڑے کرکٹ کے باریک ترین ذرات کی آلودگی کا ایک باقاعدہ نقشہ تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے نقشے ساحلوں کے ساتھ ساتھ واقع مختلف شہروں کے انتظامی اداروں کو بڑھتی ہوئی آلودگی پر زیادہ مؤثر انداز میں قابو پانے میں مدد دیں گے۔ ساتھ ساتھ ان نقشوں کی مدد سے بحیرہء روم میں مخصوص مقامات پر نگران چوکیاں بھی قائم کی جا سکیں گی۔
اس مشن سے وابستہ ماہرین کے مطابق آلودگی یا تو بڑے شہروں کے نزدیک زیادہ ہے یا پھر وہاں، جہاں دریا سمندر میں گرتے ہیں۔ اس آلودگی کے سلسلے میں سمندری موجوں کا کردار بے حد اہم ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ اِس کوڑے کرکٹ کو بہا کر دور لے جاتی ہیں اور اُسے وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی باریک ذرات میں بدل دیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق بعد ازاں یہی ذرات مچھلیوں کی خوراک بنتے ہیں اور جب مچھلی کا گوشت ہماری کھانے کی میزوں پر پہنچتا ہے تو ایک طرح سے ہمارے اپنے ہی پلاسٹک بیگ پھر سے ہمارے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
فرانسیسی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ دومونتے نے حال ہی میں الجزائر کا دورہ کیا تھا اور وہ بتاتے ہیں کہ جنوبی بحیرہء روم میں حالات زیادہ ناگفتہ بہ ہیں۔ وہاں ماہی گیر جب اپنے جال باہر نکالتے ہیں تو وہ آدھے مچھلیوں سے اور آدھے کوڑے کرکٹ سے بھرے ہوتے ہیں۔ دومونتے کہتے ہیں کہ اگر اس آلودگی کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے اور یہ اپنی موجودہ رفتار سے جاری رہی تو اگلے تیس تا چالیس برسوں میں بحیرہء روم مردہ ہو چکا ہو گا۔
(aa/km(afp